دوپہر اوربعد از دوپہر

اس لئے میں نے صبح کا نہیں لکھا اور صرف دوپہرکا ذکرکیا ہے کیونکہ سویرے تو سڑکوں پر ٹریفک کی وہ ہنگامہ پروری نہیں ہوتی جو بعد میں دن چڑھے اور خاص طور پر دوپہر کے وقت جمعہ کے دن اور بعد از دوپہر ہفتہ کے باقی ایام میں اتوار کے دن کو چھوڑ کر ہوتی ہے کیونکہ جمعہ کو تو سکولوں کی آدھی چھٹی ساری ہوتی ہے اور عام دنوں میں دوپہر کے بعد سکولوں اور کالجوں سے چھٹی ہوتی ہے تو بس کیا ہوتا سکولو ں کی کالی نیلی بسیں سڑکو ں کو روندتی ہوئی بیچ رش کے تیز رفتاری سے اپنی اپنی منزل کی جانب شہر کے تنگ گلی کوچوں کو رواں ہوتی ہیں۔ انہیں گلی کوچوں میں سے سویرے سویرے برآمدہوتی ہیں تو چلو سڑکوں پر ان کے راستے میں کچھ مزاحمت نہیں ہوتی مگر جب چھٹی ہوتی ہے تو ان رنگا رنگ بسوں کے  کچھ ڈرائیور حضرات جن میں یہاں بعض کا ذکر ہے انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے بس کو یوں دوڑاتے ہیں جیسے کسی ریس میں حصہ لے رہے ہوں۔ یہاں تو جتنے سائز کی بس ہے اتنے ہی سائز کی سڑک بھی ہے اگر یہ چلیں تو ان کے سنگ سنگ نظارے چل سکتے ہیں مگر باقی کی ٹریفک تو ان کے پیچھے ہی گھسٹتی چلی جائے گی۔ کیونکہ ان کو اور ٹیک کرنے کا راستہ جو نہیں ملتا  سو ان بسو ں کی وجہ سے ٹریفک کی پُر شوری میں ہنگامہ خیزی اور جلدی کا عنصر جڑ پکڑلیتا ہے۔پھر خاص طور پرتو ا س گول چوک میں ٹریفک یوں بلاک ہو جاتی ہے کہ جیسے کسی نے تالا لگا کر چابی دریا میں پھینک دی ہے کہ جب تک چابی نہیں نکلے او روہ پھینکنے والا خود نہ آئے ٹریفک نے سٹارٹ نہیں ہونا۔ ایسے میں ٹریفک کے علاوہ ہتھ ریڑھی والوں نے بھی سڑک کی سائیڈوں کو اپنی پامالی سے خجل کر رکھا ہوتا ہے پھر وہ ہتھ گاڑیوں والے بھی اس قدر بد دماغ ہوتے ہیں کہ ان کو اگر کہو کہ گاڑی کو تھوڑا پیچھے کرو تاکہ بائیک سوار تو قطار اندر قطار نکل چلیں اور اس چوک میں رش کم ہو۔ اس پر مجال ہے کہ ان کے کان پر جوں تک رینگتی ہو۔حالانکہ جوں کو دوڑنا چاہئے۔ مگر وہ الٹا بد تمیزی پر اتر آتے ہیں‘ ذرا صبر سے کام لو راستہ کھلے تو چلے جاؤ گے مگر ان کے دل پر اس کا بوجھ نہیں ہوتا کہ وہ اگر اپنی ہتھ گاڑی کو تھوڑا سا سرکا لیں تو کچھ نہ کچھ بندش آزاد ہو جائے۔ اب ہر جگہ ہر چوک میں ہر چورستے اور ہر موڑ پر کہاں سے ٹریفک پولیس والا آن کر کھڑا ہو جائے۔اتنی نفری کہاں سے آئے گی۔ ان کے اور بہت سے کام ہیں۔پھر خدا لگتی بات ہے کہ کسی پولیس پیادہ کو کیا معلوم کہاں ٹریفک جام ہے اور کہاں ٹریفک کا الجھاؤ سامنے آنے والا ہے۔اس شہر کو کنٹرول کرنے کے لئے ہزاروں پولیس باوردی اہلکارانِ ٹریفک کی ضرورت ہے۔اصل میں بس کے ڈرائیور حضرات کہ جن کے لئے اس کالم میں قلم اٹھایا گیا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹریفک کے اس رش میں آہستہ اور دھیرج سے گاڑی چلائیں۔ان کو کاہے کی جلدی ہے۔پھر ایک بس تو نہیں ہے۔بس یہ سمجھو کہ بعد دوپہر ایک آدھ گھنٹے کے لئے پورے کا پورا شہر ہائی جیک ہو جاتا ہے۔دن دن کرتی ہوئی بسیں دندناتی بھاگ رہی ہیں۔ یہ ڈرائیور نہیں دیکھتے کہ کوئی حادثہ ہو سکتا ہے‘بس دوڑو اور دوڑو۔گو کہ سب ایسے نہیں ہوتا‘ جانے ان کو کس بات کی جلدی ہوتی ہے۔حالانکہ ان کی بس کی پُشت پر ٹیلی فون نمبر بھی لکھا ہوتا ہے کہ ڈرائیور کے رویے کے بارے میں اس نمبر پر شکایات درج کروائی جاسکتی ہے۔تو میں نے کروائی مگر اس کا اثر ہوا ہو اس کی ضمانت میرے پاس نہیں ہے۔مومن کا شعر ہے کہ ”اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا۔رنج راحت فزا نہیں ہوتا“ پھر وہ شعر کہ”تم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک۔شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک“کئی بار ایسا ہوا اور میں نے دیکھا کہ یہ بس ڈرائیور کسی موٹر سائیکل کو کچلتے کچلتے رہ گیا۔ کیونکہ ان کو جلدی کے عالم میں اپنے اوپر قابو نہیں ہوتا۔ یہ ایک مقام کی بات تو نہیں ہے۔پورے شہر میں سے بچے اور طلباء اچھی سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے لئے صبح دم اور پھر سکول کے بعد انہیں اپنی سکول کی بسوں میں سفر کرتے ہیں مگر ان ڈرائیور حضرات سے درخواست ہے کہ بسوں کو آہستہ چلائیں۔ کوئی نیچے آگیا تو ان کی تو بلا کو پروا نہ ہوگی۔پھر بہانے بنائے جائیں گے۔یہ ہوا ہو وہ ہوا قصور میرا نہیں تھا۔خود زخمی ہونے والے کا اپنا دوش تھا۔پھر بیچ بچاؤ کرنے والے آجائیں گے اور معاملہ کو رفع دفع کرنے کی غرض سے دونوں فریقین کو سمجھائیں بجھائیں گے اور بات اگلے حادثے تک موقوف ہوجائے گی۔عارضی طور پر اگلی مصیبت کے لئے وقفہ آ جائے گا۔مگر یہ لوگ اپنے اخلاق کو درست نہیں کر پائیں گے۔ہم تو صبح دوپہر شام اور رات ہمہ وقت کسی نہ کسی کام کے لئے سڑک پر آوارہ گردی میں مصروف رہ کر آوارہ گرد کی ڈائری لکھتے رہتے ہیں۔کیا ہم جیسوں بیکار لوگوں سے بھلا ٹریفک کے معاملات چھپے رہ سکتے ہیں۔اس لئے سو باتوں کی ایک بات کہ احتیاط ضروری ہے۔