پاکستان کا مجموعی قرض پچاس کھرب روپے ہے جس میں سے قریب 33 کھرب روپے ملکی روپے جبکہ بقیہ غیر ملکی کرنسیوں میں ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں شاذ و نادر ہی ایسا کوئی بھی مالی سال ایسا گزرا ہے جس میں حکومت کی آمدنی کل قومی اخراجات کی ادائیگی کے بعد زیادہ (سرپلس) رہی ہو جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اخراجات قومی آمدنی سے ہمیشہ زیادہ رہتے ہیں۔ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں تو خسارہ پورا کرنے کے لئے ملکی اور غیرملکی ذرائع سے قرض لیا جاتا ہے اور جو جتنا زیادہ قرض دیتا ہے اُس کی شرائط بھی اتنی ہی سخت ہوتی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام نے جو پیسہ بینک کھاتوں میں رکھا ہوا ہے‘ بینک اُس ڈیپازٹ کا استعمال سرکاری یا نجی شعبے کو قرض دینے کے لئے کرتے ہیں۔ اِس صورتحال میں اگر پاکستان سود سے پاک بینکاری اور معیشت کی طرف بڑھتا ہے تو ایسے مالیاتی ادارے بنانا ہوں گے جو خودمختار رہتے ہوئے صفر شرح سود (مفت) قرضے فراہم کریں۔ اِس سلسلے میں مغربی (ترقی یافتہ) ممالک کی مثالیں موجود ہیں۔ اُنہوں نے گزشتہ دہائی کے دوران صفر شرح سود بلکہ منفی شرح سود پر بھی قرض فراہم کئے تاکہ اُن کے ہاں جو معاشی مندی تھی اُس کا خاتمہ کیا جا سکے اور اپنی اِس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں جس کا ایک فائدہ (ثمر) یہ بھی حاصل ہوا ہے کہ معاشی بحالی و ترقی سے حکومت کو ٹیکسوں کی صورت آمدن حاصل ہوئی‘ جسے عوام کی بہبود پر خرچ کیا گیا اور مالیاتی توسیع اپنی جگہ ہوئی جس کی وجہ سے افراط زر (مہنگائی) میں نمایاں کمی بھی ہوئی۔ تو معلوم ہوا کہ جب تک معاشی معاملات قرض لے کر چلاتے رہیں گے اُس وقت تک سود سے پاک معیشت رائج کرنا خواب ہی رہے گا تاہم اس بات کا امکان موجود ہے کہ ملک کے تمام کمرشل بینکوں کو اسلامی بینکوں میں تبدیل کر دیا جائے اور اِس سلسلے میں پیشرفت (روڈ میپ) دیکھنے میں آ رہا ہے۔ چونکہ بینکاری میں کسی مالیاتی ادارے کے اثاثوں کا قریب 70فیصد اُس کا اپنا ہوتا ہے اور اپنے سرمائے کو خرچ کرنے یا اُسے قرض دینے کے لئے وہ ادارہ خودمختار بھی ہوتا ہے لہٰذا نجی اثاثوں میں تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔سود سے پاک معیشت ممکن ہے بلکہ یہ بہت ہی منافع بخش اور معیشت کو مضبوط کرنے والا قدم ہوسکتا ہے تاہم اسکے لئے ضروری ہے کہ یہ سب اقدامات عملاً اٹھائے جائیں۔ا س میں تو کوئی شک نہیں کہ جس کو بلا سود قرضہ ملے گا اس سے وہ زیادہ اطمینان اور تندہی سے فائدہ اٹھائے گا اور اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ ایک طرف وہ بینک کو زیادہ آسانی سے اور بروقت قرض کی واپسی کر سکے گا تو دوسری طرف معاشی تیزی کے باعث حکومت کو ٹیکس کی صورت میں زیادہ فائدہ ہوگا۔اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ بینکاری کے ڈھانچے میں اصلاحات کے عمل کو تیز کیا جائے اور اس سلسلے میں عملی اقدامات کو جلد از جلد اٹھایا جائے تاکہ بلا سود بینکاری کا خواب شرمندہ تعبیر ہو اور حقیقی معنوں میں عام آدمی کو معاشی ڈھانچے میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے۔