ترقی کیا ہے

 کہنے کو توترقی  کا پہیہ ان دنوں تیزی سے گھوم رہا ہے اور ماضی کے مقابلے میں حال بہت مختلف ہے۔اور اس کی وجہ وہ سہولیات اور آسانیاں ہیں جو آئے روز زندگی کا حصہ بنتی رہتی ہیں۔ ایک جگہ جانے کیلئے اگر پہلے ہفتہ لگتا تھا تو اب گھنٹے بھر کا سفر طے کرکے اس مقام تک پہنچنا ممکن  ہے اور وہاں سے واپسی بھی قلیل وقت میں ہوجاتی ہے۔سردی میں گرم رہنے اور گرمی میں سرد رہنے کے آلات موجود ہیں۔جس سے موسموں کی شدت کا پہلے کے مقابلے میں آسانی سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے مگر کیا یہی حقیقی ترقی ہے، اس حوالے سے مشہور دانشور اور ادیب اشفاق احمد اپنی ایک نشری تقریر میں لکھتے ہیں کہ مجھے اپنے ایک امیر دوست کیساتھ کاروں کے ایک بڑے شوروم میں جانے کا اتفاق ہوا‘ شوروم کے مالک نے ہمیں کار کا ایک ماڈل دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ ماڈل تو ابھی بعد میں آئے گا لیکن ہم نے اپنے مخصوص گاہکوں کے لئے اسے پہلے ہی منگوالیا ہے انہوں نے بتایا کہ اس ماڈل میں پہلے کی نسبت کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور یہ کمال کی گاڑی بنی ہے‘میں نے استفسار کیا کہ کیا پچھلے سال کی گاڑی میں کچھ خرابیاں تھیں جو آپ نے اب دور کردی ہیں؟ وہ خرابیوں کیساتھ ہی چلتی رہی ہے! اس میں کیا اتنے ہی نقائص تھے جو آپ نے دور کردیئے؟ کہنے لگے نہیں اشفاق صاحب یہ بات نہیں ہے ہم کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اس میں جدت آتی رہے اور اچھی‘باسہولت تبدیلی آتی رہے تو یہ سن کر میرا دماغ پیچھے کی طرف چل پڑا اور مجھے یہ خیال آنے لگا کہ ہر نئی چیز‘ہر پیچیدہ چیز‘ہر مختلف شے یقینا بہتر نہیں ہوتی اس مرتبہ میری میری سالگرہ پر میری بیوی نے مجھے کافی پر کو لیٹر دیا اور وہ اسے خریدنے کے بعد گھر اس قدر خوش آئیں کہ بتا نہیں سکتا‘ کہنے لگیں میں بڑے عرصے سے اس کی تلاش میں تھی یہ بالکل آپ کی پسند کا ہے اوریہ آپ کو اٹلی کی یاد دلاتا رہے گا آپ اس میں کافی بنایا کریں میں نے دیکھا وہ بالکل نیا تھا اور اس میں پلاسٹک کا استعمال زیادہ تھا لیکن اس کا پیندا کمزور تھا اور وزن زیادہ تھا دوسرا اس کی بجلی کے پلگ تک جانے والی تار بھی چھوٹی تھی اور جب میں نے اسے لگاکر استعمال کیا تو اس میں پانی کو کھولانے کی استطاعت تو زیادہ تھی لیکن کافی بھاپیانے کی طاقت اس میں بالکل نہیں تھی چنانچہ میں ان کا (بانوقدسیہ) دل تو خراب کرنا نہیں چاہتا تھا اور میں نے کہا ہاں یہ اچھاہے لیکن فی الحال میں اپنے پرانے پر کولیٹر سے ہی کافی بناتا رہوں گا۔ترقی جس کے پیچھے ہم سارے بھاگے پھرتے ہیں اور جس کے بارے میں جگہ بہ جگہ گھروں سے باہر محلوں شہروں میں حکومتوں اور اس کے باہر ترقی کی جانب ایک بڑی ظالم دوڑ جاری ہے اس دوڑ سے مجھے ڈر لگتا ہے کہ حاصل تو اس سے کچھ بھی نہیں ہوگا کیونکہ ترقی میں اور فلاح میں بڑا فرق ہے میں اور میرا معاشرہ میرے اہل وعیال اورمیرے بال بچے فلاح کی طرف جائیں تو میں ان کے ساتھ ہوں‘خالی ترقی نہ کریں۔“ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ حقیقی ترقی کی پہچان ہے۔ مادی طور پر زیادہ سہولیات کے باجود انسانوں میں بے چینی اور بے سکونی زیادہ ہوگئی ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ یہ حقیقی ترقی نہیں۔ان سہولیات اور آسانیوں نے انسانی زندگی کو سہل بنانے کی بجائے اور مشکل بنا دیا ہے۔