ہماری تحریروں کا کسی پراثر ہو نہ ہو یہ بھی کیا کم ہے کہ ہمارے اپنے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے۔مگر یہ ہے کہ تحریر کوئی بھی ہو کسی نہ کسی قاری پر کوئی نہ کوئی اثرات ضرورمرتب ہوتے ہیں۔یہی ایک لکھاری کا مقصد ہو تا ہے۔حالانکہ ادب لکھنے والے کا اول مقصد اپنے ہی ذوق کو تسکین پہنچانا ہوتا ہے۔گویا اپنی ذات کو فائدہ دینا ہوتا ہے۔خواہ ناول افسانہ ڈرامہ شاعری کچھ بھی ہو۔ادب لکھنے والے رائٹر کے ذہن میں قاری نہیں ہوتا۔ وہ اپنے آپ کو مسرت پہنچانے کے لئے لکھتا ہے۔مگر کالم ایسی چیز ہے جس کا براہِ راست تعلق عوام کے ساتھ ہے۔ گویا اخباری تحریر لکھنے والوں کے ذہن میں آشکار طور پر اخبارخرید کر پڑھنے والے ہوتے ہیں۔جو اخبارکا مطالعہ روز کرتے ہیں۔اخبار میں لکھنے والے کوبخوبی معلوم ہوتا ہے کہ میں یہ تحریر اپنے لئے نہیں لکھ رہایہ عوام کے لئے ہے۔ا س کو عوام پڑھیں گے۔یہی تو ادب و صحافت میں فرق ہے۔ ادب خود رائٹر کے اپنے لئے ہوتا ہے۔جس سے وہ حظ اٹھاتا ہے مسرت لیتا اور اپنے الفاظ سے اپنے لئے ہی لطف کشید کرتا ہے۔ یہ تو بعد میں زندگی کے کسی موڑ پر اس کی تحریریں کتابی صورت میں جمع ہو کر شائع ہوتی ہیں تو عوام تک پہنچ پاتی ہیں۔مگر اخبارکے لکھنے والے کے پیشِ نظر اخبار پ ڑھنے والے ہوتے ہیں جو اس کی تحاریر کو دوسرے ہی دن پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔سو اول تو کالم لکھنے کے بعد کالم پڑھنے والے پر فوری اوراچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔قاری خواہ کسی شہر میں ہو اس پر کوئی نہ کوئی اچھا اثر ہو تا ہے۔کیونکہ آج کل تو دنیا کے کسی کونے میں بھی بیٹھ کر نیٹ پر کوئی اخبار بھی پڑھا جا سکتا ہے۔پھر کالم نویسی کے وقت خیال رکھنا ہوتا ہے کہ کوئی بات غلط طور پر قلم سے نکل نہ جائے جس کی وجہ سے بعدمیں شرمندگی اٹھانا پڑے۔وگرنہ تو ہم دل کی بھڑاس ہی نکال لیں تو خودہمیں بھی بہت فائدہ حاصل ہو جاتا ہے۔ادب لکھنے والا بھی تو دل کی بھڑاس ہی نکالتا ہے۔مگر اس کے ادب کو قاری تک پہنچنے کے لئے بہت وقت لگ جاتا ہے۔بعض اوقات برسوں بیت جاتے ہیں۔اب شاعری کی کتاب شائع کرنے والے نے ایک روز قبل تو شاعری نہیں کی ہوتی۔جانے وہ کب سے شاعری کر کے اپنی غزلیں نظمیں جمع کرتا ہے اور پھر ایک دن ان کو کسی مجموعہ میں جمع کر کے چھاپ دیتا ہے۔مگر اخبار کا لکھنے والا ایک دن پہلے تیاری کر کے دوسرے دن اخبار میں اپنی تحریر شائع کروا لیتا ہے۔ادبی تحریروں کا بھی قارئین پر اثر تو ضرور ہوتا ہے مگر صحافتی تحاریر بھی اگلے کے دل پر ٹھاک سے لگتی ہیں۔مگر اگر کچھ بھی نہ ہو تو اتنا بھی کیا کم ہے کہ خود اپنے دل کی بھڑاس نکلے اور دل ہلکا ہو جائے۔ گویایہ غبارِ خاطر ہوتاہے اور یہ دل کا غبار کسی عام میڈیکل بخار کی صورت میں اُتر جاتا ہے۔وہ تو آپ نے سن رکھا ہوگا ”دل کی تنہائی کو آواز بنا لیتے ہیں۔درد جب حد سے گزرتاتو گالیتے ہیں“۔ خیر ہم تو باتھ روم سنگر ہیں گانا تو نہیں جانتے۔ مگر یوں کالمی تحریر سامنے لا کر غبارِ خاطر کے بوجھ کو دل سے اتار پھینکتے ہیں۔اتنا معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم ایک آدمی پر تو ہماری تحریر کا اثر ہوا ہوگا۔اب ایک ہے یا ہزار ہیں مگر ہم تو اسی ایک کے لئے منجی پیڑی ٹھوک کر لکھتے ہیں کہ تحریرکی چولیں درست ہو ں اور چارپائی کی بان پائنتی کی طرف سے کھنچی ہو۔پھر یوں ہو کہ چارپائی پر ہاتھ مارو تو کسی سازکی طرح آوازدے۔ویسے مشتاق احمد یوسفی نے چارپائی کے نام سے جو انشائیہ لکھا ہے۔ اس میں انھوں نے چارپائی کو ایشیائی قبیل کا ایک سازکہا ہے۔اس لئے کالم کی طنابیں بھی کھنچی ہونی چاہئیں۔تاکہ چارو ں جانب سے چست ہو۔ اس طرح کہ کالم کو پڑھیں توپڑھنے میں مزا دے۔ہم بھی تو دل کی تنہائی کو آواز بنا دیتے ہیں اور لفظوں کی بنت کاری میں اپنی سی آواز میں جیسے بھی ہو گا لیتے ہیں بلکہ گا ہی لیتے ہیں۔مگر کچھ اور احساس ہو نہ ہواتنا تودل کو دلاسہ ہوتا ہے کہ ہم نے بھی معاشرے کی بہتری کے لئے اپنے حصے کی شمع روشن کی ہے۔کچھ ڈیلیور تو کیا ہے۔کچھ اپنا تو نہیں مگر اپنا سا حصہ ڈالا ہے۔سو ہم اس پرشاداں ہوتے ہیں کہ ہم معاشرہ کو کچھ نہ کچھ اچھا دے پائے ہیں۔پھر یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔کسی لکھاری پرایک لحاظ سے فرض بن جاتا ہے کہ وہ اگر لکھے تو اخبار کے حوالے سے دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔کسی برائی کو ہاتھ سے روک نہ سکیں تو دل میں برا کہنے سے اچھا ہے کہ ان دلی طور پر مخالفانہ جذبات کو تحریر میں لے آئیں تاکہ بہتوں کا بھلا ہو اور یوں مشعل سے مشعل جلے گی اور ماحول میں رچے بسے ہوئے اندھیارے دور ہوں گے اورگرد و پیش کی سیاہی میں سے نئے طرزکے ستارے برآمد ہوں گے اور روشنیو ں کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ درازہوگا۔