پاکستان کو تعلیم کے شعبے میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں اہم و توجہ طلب شعبہ جسے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے وہ آب و ہوا (موسمیاتی) تبدیلی سے متعلق خواندگی کی انتہائی کم شرح ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے جنم لینے والی آفات کا مقابلہ اِن کے بارے میں تعلیم عام کرنے سے کیا جا سکتا ہے اور اِس سلسلے میں ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں آب و ہوا کی تبدیلی کو بالخصوص اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو بالعموم تعلیم و تحقیق کا جز بنایا گیا ہے لیکن یہی ترقی یافتہ ممالک کرہئ ارض کے ماحولیاتی تنوع میں بگاڑ کے لئے ذمہ دار بھی ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے انتہائی متاثر دس ممالک میں سرفہرست ہے۔ پاکستان میں برفانی تودے (گلیشیئرز) پگھلنے‘ سیلاب‘ سموگ اور ہیٹ ویو وغیرہ جیسی متعدد موسمیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ اور سامنا کیا جا رہا ہے۔ ان آفات کے نتیجے میں بگڑتی ہوئی معیشت‘ غذائی عدم تحفظ‘ پانی کی قلت اور صحت کے مسائل پیدا ہوئے ہیں جو خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیا یہ بات معمولی ہے کہ حالیہ سیلاب سے پاکستان کے معاشی نقصانات کا حجم 30 ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور اِس سیلاب کی وجہ سے کئی سماجی و اقتصادی شعبوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ماحول سے متعلق آگاہی بڑھانے اور تحقیق پر مبنی حل تلاش کرنے میں تعلیم اور ذرائع ابلاغ (سٹریٹجک کیمونیکیشن) کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی پالیسیاں تیار کرنے اور نصاب تعلیم کو ’اپ ڈیٹ‘ کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہنگامی بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلی کو ترجیح دینا پاکستان کے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔ دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فکرمند دکھائی دیتی ہے جس سے نمٹنے کی مشترک و مربوط عالمی حکمت کا نام ”پیرس معاہدے“ ہے۔ اِس معاہدے کے ’آرٹیکل 12‘ میں کہا گیا ہے ”فریقین (ممالک) موسمیاتی تبدیلی کی تعلیم و تربیت‘ عوامی آگاہی‘ عوامی شمولیت اور معلومات تک عوامی رسائی بڑھانے کے لئے مناسب اقدامات کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔“ لیکن پاکستان میں تاحال خاطرخواہ بڑے پیمانے پر کوششیں دیکھنے میں نہیں آ رہیں جن کے تحت نصاب تعلیم میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق موضوعات (اسباق) کو شامل کیا جائے۔ ”پیرس معاہدے“ کے تحت یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”موسمیاتی تبدیلی کی آفات کا مناسب جواب دینے کے لئے تمام سطحوں پر تعلیمی اداروں میں آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں رسمی تعلیم شروع کرنے کے لئے حکومتی سطح پر تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے گا۔“ سب سے پہلے سکول میں بچوں کو ان کے ابتدائی تعلیمی سالوں میں آب و ہوا کی تبدیلی کے سادہ تصورات سکھائے جانے چاہئیں۔ اِس سلسلے میں جنوبی پنجاب کے محکمہئ سکول ایجوکیشن کی جانب سے سال دوہزاربائیس کے دوران تمام سرکاری سکولوں کے نصاب (باضابطہ تدریس) میں موسمیاتی تبدیلی کو ایک الگ مضمون کے طور پر متعارف کرایا گیا جو دیگر صوبوں بالخصوص سیاحت کے وسائل و جنگلات کی دولت سے مالا مال خیبرپختونخوا کے لئے قابل عمل مثال ہے اور اِس حکمت عملی کا اطلاق ملک بھر کے سکولوں میں کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ جنگلات کے ذریعے کاربن کے اخراج کا کم کیا جا سکتا ہے۔ اِس تصور کے تحت سکولوں میں شجرکاری مہمات دیکھنے میں آتی ہیں لیکن یہ چند روزہ سرگرمی نصاب تعلیم میں اسباق نہ ہونے کی وجہ سے خاطرخواہ تاثیر نہیں کرتیں۔ اساتذہ‘ والدین اور ذرائع ابلاغ (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) کو چاہئے کہ وہ بچوں کو باتوں باتوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے آگاہ کریں۔ ماحولیاتی تعلیم کو نصاب کا لازم حصہ بنانے کا مطالبہ کیا جائے اور بچوں کو ماحول دوست طرزعمل اختیار کرنے کے لئے اُن کی سالگرہ کے موقع پر درخت لگانے یا اُنہیں پودے کا تحفہ دے کر ماحول کے بارے میں سوچنے کی طرف راغب کریں۔آب و ہوا کی تبدیلی کے ابواب ثانوی اور اعلی ثانوی سطح پر سائنس کی کتابوں میں متعارف کرائے جاسکتے ہیں۔ انڈر گریجویٹ سطح پر ماحولیاتی مطالعہ کے علاؤہ آب و ہوا کی تبدیلی کا اختیاری مضمون بھی متعارف کیا جا سکتا ہے۔