شیخ سعدی ؒ حکایت بیان کرتے ہیں ایک ملک کا شہزادہ بادشاہ کے ہمراہ طویل سفر پر نکلا اس دوران ایک پڑاؤ پر رات کے وقت شہزادے کے تاج میں جڑے قیمتی پتھروں میں ایک لعل گر کر گم ہوگیا۔معاملہ معلوم ہونے پر تاریک رات میں بادشاہ نے اپنے نورچشم کو سمجھاتے ہوئے اس سے کہا کہ رات کی تاریکی میں تجھے کیا معلوم کہ کونسا پتھر ہے اور کونسا گوہر ہے؟ اس لئے اے برخوردار! یہاں کے تمام پتھروں اور سنگریزوں کی حفاظت کرلو کہ اگر وہ لعل ہوگا تو انہی سب کے اندر ہی ہوگا‘یعنی پتھروں کو ادھر ادھر پھینکنے کی بجائے اسے محفوظ رکھو کہ انہی پتھرو ں میں سے ایک تمہارا لعل ہے۔ تو اگر ان پتھروں کو دور پھینکے گا تو اپنے گوہر سے بھی محروم ہو سکتا ہے، یعنی دوسروں کی قدر نہ کرکے آپ اپنی قیمتی متاع کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔بادشاہ کی اس نصیحت سے شیخ سعدیؒ نے یہ ذہن کھولنے والا نکتہ نکالا ہے کہ ایک معاشرہ میں ہر طرح کے لوگ آپس میں گھلے ملے ہوتے ہیں برے لوگوں کے اندر بھلے لوگ ایسے ہی چھپے ہوئے ہیں کہ جیسے کہ پتھروں کے اندر لعل ہیں۔پس اے صاحب! باعزت طورپر ہرجاہل کا بوجھ برداشت بھی کیا کریں کیا گمان کہ کس وقت کوئی صاحب دل اور صاحب کمال تک بھی پہنچ جائے۔یعنی عام
لوگوں میں سے کسی بھی وقت آپ کی ملاقات کسی خاص شخص سے ہو سکتی ہے جو ان ہی عام لوگوں میں موجود تھا اور ان ہی میں سے آپ کوملا۔ اگر کسی کو دوست سے محبت اور انس ہے تو کیا تو یہ نہیں دیکھتا کہ وہ اس دوست کی خاطر دشمن کا بار بھی کس طرح سے برداشت کرتاہے۔ ایک فرد کی دوستی اتنی قیمتی ہوتی ہے کہ اس کے لئے بہت سے ایسے افراد کی قدر و منزلت بھی کرنی پڑتی ہے جس سے دوست کا واسطہ ہے۔ یہی زندگی کا راز ہے کہ تکالیف کے بیچ میں آسانیاں پنہاں ہیں اور ہر آسانی کے پیچھے کوئی تکلیف پوشیدہ ہے۔ایک بندہ جب پھول تک پہنچتا ہے تو اپنے پھول جیسا جامہ کانٹوں سے پھاڑتا ہے تو گویا اسکا دل خون میں غلطاں اورڈوبا ہوا ہے مگر بظاہر جیسے انار کی مانند ہنستا ہو صرف ایک کی خوشنودی اور محبت کی خاطر وہ جملہ کتنے لوگوں کے غم اٹھاتا ہے گویا صرف ایک کیلئے سینکڑوں لوگوں سے
مراعات برتتا ہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی تلخ زندگی والے اور کرواہٹ کا مزہ چکھنے والے بہشتی جوڑا زیب تن کرنے والے ہیں۔ یعنی تکلیفوں اور مصائب کو چھکنے والے ہی مزے اور راحت کا مزہ لے سکیں گے۔راحت اور آرام کی قدر اسی کو ہوتی ہے جو بے آرامی سے گزرا ہو۔ اس لئے اے برخوردار اگر تجھ میں عقل ہے اور تیرے اندر تدبیر ہے شہزادے کے نواخانے میں بھی اسکے ہاتھ پر بوسہ دے اس لئے کہ کل کو وہ آزادی حاصل کرکے جب وہ تخت نشین ہوگا تو وہ یقینا تجھے بلند رتبہ بخشے گا اے صاحب! موسم خزاں میں پھولوں کے درختوں کو نہ جلاؤ کیونکہ یہی تو تجھے فصل بہار میں تروتازہ اورشگفتہ دکھائی دینگے۔شیخ سعدی ؒ ایک اور مقام پر حکایت بیان کرتے ہیں کہ کسی قافلہ میں سے ایک شخص کا بیٹا گم ہوگیا اور یوں وہ شخص پریشانی کی حالت میں رات بھرا سے قافلہ میں تلاش کرنے میں سرگرداں رہا وہ ہر خیمہ پر جاکبر اپنے برخوردار کے بارے میں پوچھتا اور شب تار میں اپنے نور نظرکو ڈھونڈتا رہا آخر کار اس نے ایک خیمے میں اپنے بیٹے کو پالیا جب وہ شخص کاروان کے لوگوں کے پاس پہنچا تو میں نے سنا کہ وہ ساربانوں کو اس طرح سے بتا رہا تھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں دوست تک کس طرح سے پہنچا ہوں جو بھی میرے سامنے آیا میں نے اس سے ضرور دریافت کیا اور اسے اپنا ہی بیٹا سمجھا، اگر میں ہر کسی سے دریافت نہ کرتاتو اپنے مقصد کو پانے میں ناکام ہو سکتا تھا۔سچ یہ ہے کہ جب کسی کو کوئی کھو جائے تو دور سے ہر شخص اسی طرح کا نظر آتا ہے اور وہ ہر کسی سے اس کا طلبگار بھی ہوتا ہے۔ اس حکایت سے شیخ سعدیؒ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے ہر سمت میں کوشش کی جاتی ہے اور ہر کسی سے مسئلے کے حل کی امید کی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنے مقصد کے حصول میں ہمہ وقت مصروف رہنا چاہئے اور اسے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ نہ جانے کس وقت مشکل دور ختم ہو اور آسانی شروع ہو۔ تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے حواس کو مجتمع رکھے اور اپنے ارادوں کو کمزور نہ ہونے دے۔یہی آگے بڑھنے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کا بہترین راستہ ہے دیکھا جائے تو ہمارے اکثر مسائل اور مشکلات کی بڑی وجہ خود ہماری خود اعتمادی میں کمی اور ارادوں کی کمزوری ہوتی ہے جس سے چھٹکارہ پا کر مشکلات پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔