ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے 

 سینٹ میں اس بات کا انکشاف کہ ریڈیو پاکستان مالی بحران کا اس قدر شکار ہو چکا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگی سے بھی قاصر ہے ایک افسوس ناک امر ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ریڈیو ابلاغ عامہ کا ایک نہایت ہی موثر ادارہ ہے اور عام آدمی تک اس رسائی ٹیلی ویژن سے زیادہ وسیع ہے اور اس کی نشریات ملک کے کونے کونے اور چپے چپے تک پہنچائی جا سکتی ہیں دکھ ہوتا ہے یہ موازنہ کر کے کہ ابلاغ عامہ کے اس شعبے میں ہم دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ریڈیو کو از سر نو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے تاکہ یہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر اس پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دے سکے جو بھارت کا ریڈیو وطن عزیز کے خلاف کرنے میں مصروف ہے۔ اس کا توڑ ریڈیو پاکستان کے ذریعے موثر انداز میں کر سکتے ہیں۔ دیکھا جائے 
تو تقسیم کے وقت ہمیں کئی قومی ادارے بشمول ریڈیو پاکستان اچھی مالی حالت میں ملے تھے پرہم نے اپنی کوتاہیوں اور غلط پالیسیوں سے ان کا ستیاناس کر دیا۔ ریلوے کا جو حشر ہوا وہ بھی آپ کے سامنے ہے تو ہم ذکر کر رہے تھے ریڈیو پاکستان کا، کاش کہ اسے بخاری براداران یعنی پطرس بخاری اور زیڈ اے بخاری جیسے لوگ نصیب ہوئے ہوتے کہ جنہوں نے ریڈیو پاکستان کی شہرت کو پوری دنیا میں پھیلایا۔ جس طرح ہماری قومی ائر لائن پی آئی اے کو پھر ائر مارشل اصغر خان اور ائر مارشل نور خان جیسے قائدین نصیب نہ ہو سکے بالکل اسی طرح ریڈیو پاکستان کو دوبارہ بخاری براداران جیسے افراد نہ مل سکے۔ریڈیو پاکستان کی اعلی ترین کارکردگی کا جو معیار ان دو براداران نے قائم کیا تھا افسوس کہ ان کے جانے کے بعد اسے قائم نہ رکھا جا سکا۔اب ذرا ملک کی معاشی صورتحال کاتذکرہ کرتے ہیں۔امید کی جارہی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے ساتھ ہی دوست ممالک سے امداد اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضوں کے پروگرام بھی بحالی کی جانب گامزن ہوں گے۔ لیکن یہ بات تو اب واضح ہے حتی کہ دوست ممالک بھی ہمیں یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اب پاکستان کو امداد اور قرضے کی امیدیں لگانے سے قبل معاشی اصلاحات کے لئے کوششیں کرنی 
ہوں گی۔گزشتہ حکومتیں اصلاحات لانے سے کتراتی رہیں جس کی وجہ سے معاملات مزید خراب ہوتے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اگر بروقت کسی مسئلے کی طرف توجہ دی جائے تو اس کا حل آسان ہوتا ہے جبکہ بعدا زاں جب مسئلہ گھمبیر ہو جائے تو پھر حل آسان نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال آج کل ہماری معیشت کی بھی ہے۔لیکن سوال یہ بھی ہے کہ بڑے پیمانے پر آخر کیا اصلاحات کی جائیں گی؟ دیکھا جائے توتعلیم، صحت اور سماجی بہبود کی پالیسیوں میں بھی اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔ اعلی تعلیم کی پالیسیوں میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ بلکہ اس ملک میں شاید ہی ایسا کوئی محکمہ ہو جہاں اصلاحات کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن اصلاحات کے نفاذ سے پہلے ہمیں اس حوالے سے تفصیلی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔