ترکیہ اور شام میں زلزلے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ناقابل تلافی جانی نقصانات اور تباہی ہوئی ہے۔ چھ فروری کی صبح آنے والا یہ زلزلہ اِس قدر شدید تھا کہ اِس کے جھٹکے لبنان اور اسرائیل میں بھی محسوس کئے گئے تاہم زیادہ تر ہلاکتیں ترکی اور شام میں ہوئیں۔ پہلے زلزلے کی شدت 7.8 جبکہ دوسرے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.5 تھی‘ متاثرہ ممالک سے آنے والی ویڈیوز اور تصاویر دل دہلا دینے والی ہیں‘شہر کے شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں‘ سڑکیں اکھڑنے سے امدادی سرگرمیوں میں دقت پیش آ رہی ہے جبکہ ترکیہ میں تین ہزار سے زائد عمارتوں کے ملبے تلے دبے زندہ افراد تک پہنچنے کی کوششیں جاری ہیں‘ زلزلے کی ’سی سی ٹی وی فوٹیجز‘ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کثیرالمنزلہ عمارتیں لفظی طور پر کچھ اِس طرح منہدم ہوئیں جیسے یہ کاغذ سے بنی ہوئی ہوں‘ ترکیہ اور شام میں امدادی کاروائیاں سست روی کا شکار ہیں کیونکہ شدید سردی‘ بارش اور برفباری کی وجہ سے امدادی کارکنوں کا متاثرین تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہے جبکہ ہسپتال
مریضوں سے بھر گئے ہیں۔ ترک صدر طیب ارژدگان نے کہا ہے کہ ”کسی کو نہیں معلوم کہ مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد کل کتنی ہے اور یہ تعداد کس قدر بڑھ سکتی ہے!“ پیر کے روز آئے زلزلے سے ترک معیشت کو دھچکا لگا۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں لیرا (ترکیہ کی کرنسی) کی قیمت 18.85 تک گر گئی جو لیرا کی ریکارڈ کم ترین سطح ہے۔ خطے میں جغرافیائی سیاسی تناؤ اور مضبوط ڈالر کی دوڑ نے پہلے ہی ترکیہ کے لئے بہت ساری معاشی مشکلات کھڑی کر رکھی تھیں جن میں زلزلے نے اضافہ کیا ہے۔ترکیہ کی طرح شام بھی زلزلے سے متاثر ہے جہاں پہلے ہی ایک ایسی جنگ و داخلی تنازعات کی ہاتھوں عوام ناقابل تصور اذیتوں کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ تشدد و افراتفری کے نہ ختم ہونیوالے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں‘ جاری جنگ کی وجہ سے علاج کا نظام درہم برہم ہے جس پر زلزلے نے مزید دباؤ ڈال دیا ہے‘ یہ زلزلہ شام کی معاشی صورتحال کو مزید خراب کر چکا ہے‘ ابتدائی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ شام میں ہسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں‘ جس کی وجہ سے مریضوں کو ہسپتال کی راہداریوں میں علاج معالجہ فراہم کی جا رہی ہے اور زیادہ تر ہسپتالوں کو خون کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ اس نوعیت کی تباہی عالمی سطح پر اشتراک عمل کی دعوت ہے تاکہ زندہ بچ جانے والوں کی امداد و بحالی میں مدد کی جا سکے۔ خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ترک صدر سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”پاکستان اِس مشکل وقت میں ترکی کی مدد کرے گا۔“ وزیر اعظم
نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ڈاکٹروں‘ پیرا میڈکس اور ریسکیو کارکنوں پر مشتمل ٹیمیں ترکی روانہ کردی گئی ہیں جبکہ ادویات اور دیگر ضروری امدادی سامان لے جانے والا ایک طیارہ بھی ترکی بھیجا گیا ہے‘ پاکستان‘ جو معاشی مشکلات کے دور سے گزر رہا ہے‘ اِس کے پاس کسی بھی ملک کی مدد کرنے کیلئے خاطرخواہ وسائل موجود نہیں لیکن طبی عملے اور ادویات بھیج کر پاکستان نے جس دردمندی کا مظاہرہ کیا ہے وہ مثالی ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ عالمی برادری مشکل کی اس گھڑی میں ترکی اور شام کے لوگوں کی مدد کرنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیں گے‘ بدقسمتی سے ہم ایک ایسی صدی میں رہ رہے ہیں جہاں بڑے پیمانے پر قدرتی آفات ظاہر ہو رہی ہیں اور اِس وجہ سے امید کی جا سکتی ہے کہ دنیا کو جس آب و ہوا کی تبدیلی کا سامنا ہے اُس سے نمٹنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیا جائے گا‘ وقت ہے کہ زلزلے سے متاثرہ ممالک میں تباہی کے منظرنامے کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسان انسانوں کے کام آ کردکھ اور رنج میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا عملی مظاہرہ کرے۔