کتابوں کا مطالعہ وقت کیساتھ کم ہوتا جارہا ہے معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنی ایک تحریر میں بتاتے ہیں کہ 1975میں برٹش لائبریری الگ‘برٹش میوزیم کی عمارت بھی تھی اور انڈیا آفس لائبریری علیحدہ‘واٹر لوسٹیشن کے قریب تھی پہلی میں اردو ذخیرے کے نگران قاضی محمود الحق اور دوسری میں سلیم قریشی تھے اب برٹش لائبریری کی نئی عمارت بن گئی ہے چنانچہ انڈیا آفس لائبریری بھی اٹھ کر اسی عمارت میں چلی گئی ہے اس میں گنجائش بہت ہے اور ساری کتابیں ایک چھت کے نیچے موجود ہیں ورنہ وہ کہیں اور سے لائی جاتی تھیں۔اپنی تحقیق شروع کرنے سے پہلے میں ان دونوں حضرات سے ملا اور ان سے کہا کہ میں انیسویں صدی میں یعنی1803ء سے 1900ء تک شائع ہونے والی اور ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں دیکھنا چاہتا ہوں مجھے بتائیے کہ یہ کتابیں کہاں آراستہ ہیں۔میری فرمائش سن کر وہ زیر لب مسکرائے اور بولے کہ پڑھنے والوں کو کتابوں تک جانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ محفوظ مقام پر احتیاط سے رکھی گئی ہیں کتب خانے کا نظام یوں ہے کہ آپ جاکر کتابوں کے کیٹلاگ اور فہرست دیکھئے جو کتاب دیکھنی ہو اس کے لئے ایک فارم پر کیجئے اورآپ نے اپنے لئے جو میز کرسی چنی ہے اس کا نمبر لکھئے لائبریری کا عملہ آپ کی مطلوبہ کتاب لاکر آپ کے سامنے رکھ دے گا اسے دیکھئے‘پڑھئے نوٹس لیجئے مگر خیال رہے کہ لکھنے کا سارا کام آپ کو پنسل سے کرنا ہوگا کتب خانے میں سیاہی اور قلم کا استعمال ممنوع ہے وہ تو زیر لب مسکرائے تھے میں زور سے ہنسا اور میں نے کہا کہ بھلا کیوں؟ کہنے لگے کہ کتاب پر پنسل کا نشان بن جائے تو اسے مٹایا جاسکتا ہے لیکن سیاہی کا نشان مٹانا مشکل ہے اس کے علاوہ نشان مٹانے کی کوشش میں کتاب کو نقصان پہنچ سکتا ہے یہی سبب ہے کہ 1803ء میں شائع ہونے والی کتاب کی آج بھی کم وبیش وہی حالت ہے جو 1803ء میں تھی میں نے کہا کہ چلئے پرانی کتابوں کے کیٹلاگ اور فہرستیں دکھادیجئے وہ انہوں نے دکھائیں اس روز میرے سامنے دروازہ خاور کھلا انیسویں صدی کیسے بڑے آدمیوں کی کیسی عظیم صدی تھی چھاپہ خانہ نیا نیا تھا لوگوں میں کتب بینی تو کیا حصول علم کا شوق اور شعور کم تھا کیسے کیسے دکھ اٹھا کر اردو ٹائپ بنایاگیا تھا۔لیجئے صاحب‘تحقیق شروع ہوئی تین کتابوں کے لئے درخواست دی گئی مجھے کیا پتہ تھا کہ ایک ایک جلد میں چار چار پانچ پانچ کتابیں بندھی ہوئی ہیں میں تین کتابیں دیکھنے گیا تھا‘کوئی بارہ پندرہ کتابیں دیکھیں اس کو انگریزی میں بونس کہتے ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ ڈھائی تین برس کی اس جستجو کے دوران میں نے انیسویں صدی میں چھپنے والی تقریباً ساری کتابیں دیکھ ڈالیں۔ اپنے ایک پروگرام کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ جب بی بی سی سے کتب خانہ کے عنوان سے پروگرام ہونے لگا اسی روز سے سامعین کے خطوں کا تانتا بندھ گیا وہ کہتے تھے کہ ہمارے بزرگوں کی کتابوں کا ذکر کسی نعمت سے کم نہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ خط لکھنے والے سامعین دو قسم کے تھے ایک تو وہ جنہیں حصول علم سے لگاؤ تھا اور دوسرے وہ جو کتاب پڑھنے کے معاملے میں ذرا سست ہیں تعریفوں نے طول کھینچا اور اوپر سے یہ کہ نہایت اعلیٰ طبقے کے اہل علم حضرات کے خط آنے شروع ہوئے پروفیسر آل احمد سرور‘ مولانا امتیاز علی خاں عرشی زادہ اور ابن انشاء مرحوم کے خطوں نے بی بی سی کی انتظامیہ کو بہت متاثر کیا اور مجھے اشارہ مل گیا کہ بارہ ہفتوں کی پابندی ختم جب تک چاہو پروگرام جاری رکھو اور ہر پروگرام جو صرف دس منٹ کا ہوتا تھا اس کا دوانیہ بڑھا لو۔بس پھر جو یہ دامن کشادہ ہوا تو میں کتب خانوں سے جھولیاں بھربھر کر کتابیں لایا اور باقاعدگی سے سننے والوں نے کہا کہ آپ نے ہمیں مالا مال کردیا ابن انشاء مرحوم ان دنوں نیشنل بک کونسل آف پاکستان کے سربراہ تھے انہوں نے اپنے ادارے کے ماہنامے میں کتب خانہ کے پروگرام قسط وار چھاپنے شروع کردیئے کئی کتابوں نے اہل علم حضرات کو چونکایا مثلاً’جواہر منظوم‘ کے عنوان سے ایک کتاب کا ذکر آیا اس میں بچپن کے موضوع پر کچھ نظمیں انگریزی سے ترجمہ کی گئی تھیں پڑھنے کے دوران پتا چلا کہ ترجمے کے بعد یہ نظمیں الہ آباد سے دہلی غالب کے پاس بھیجی گئیں اور جب ان کی نگاہ سے گزر گئیں تو 1849ء میں شائع ہوئیں“ ان منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ کتابوں کی اہمیت کا احساس ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ کم ہوتا جارہا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
گورننس کے خلا: کیا کیا جائے؟
مہمان کالم
مہمان کالم
مثبت اصلاحات بہترین نتائج کی حامل
مہمان کالم
مہمان کالم
مرے ہوئے کو مارنا ؟
مہمان کالم
مہمان کالم