مٹی کا گھروندہ

پھر یوں بھی کہ اس گھر کو اگر ساحل سمندر پر وہاں کی ریت سے بنا دیا گیا ہو تو اس نے زیادہ دیر وہاں جم کر نہیں رہناہوتا۔کیا پتا جلد ہی کوئی بے باک موج کوئی ہلکی پھلکی پھسلتی ہوئی لہر بھولے بھٹکے بھی جنون کی کیفیت میں ساحل پر سر پٹکنے لگے تو ریت کا وہ گھروندہ پانی کی لہر میں گھل جائے۔اس لئے ساحل پر کھیلتے کھالتے ہم نے تم نے جس کو بنایا تھا وہ گھروندہ کبھی مٹ بھی جایا کرتا ہے۔سو دریا کنارے یا سمندر کے پاس جو پانیوں کی سرکشی کی میں اس قسم کے جو گھروندے تعمیر ہوتے ہیں وہ کبھی اپنے مقام پر قرار نہیں پا سکتے۔بلکہ تعمیر تو کیا زیرِ تعمیر بھی اُڑ جایا کرتے ہیں‘ساحلِ سمندر پر تیز ہوا بھی یہ شرارت انجام دے لیتی ہے۔ ہوا کا کیا ہے کبھی تو چراغ بجھا دیتی ہے اور کبھی آگ کو پھیلا دیتی ہے۔اب خیال کا پنچھی ہے کب اڑ کر یہاں سے وہاں اور کہاں سے کہاں پہنچ جائے۔یہ زین کسا ہواگھوڑا ہمیشہ بغیر باگ کے دوڑنے کو تیار رہتا ہے جانے کب کس وقت کس بات پر دونوں پاؤں پہ کھڑے اور پھر اگلی دو ٹاپوں پر دولتیاں جھاڑے کس طرف کو رواں ہو جائے۔غالب نے عمر کے گھوڑے کو بغیر باگ کے بتلایا ہے کہ یہ رخشِ عمر سرپٹ دوڑتا جاتا ہے جانے کہا ں جا کر رکے۔”رو میں رخشِ عمر کہاں دیکھئے تھمے۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نے پا ہے رکاب میں“۔بچپن سے گھر بنتے ہوئے دیکھتے آرہے ہیں اور اب تک ہر گلی کوچے میں کوئی نہ کوئی گھر نو تعمیر ہے اور یا زیرِ تعمیر ہے‘جانے انسان کی تعمیر کی سرشت کہاں تک جائے۔شہرپہ شہر بن رہے ہیں۔ جو بن چکے ہیں وسیع ہو رہے ہیں۔وسعت ِ شہر کے نام پردرختوں کو الگ سے کاٹ کر ایک طرف کر دیا جاتا ہے۔ ہم ان چھتناروں کو راستے سے ہٹاکرکتنا خوش ہوتے 
ہیں۔پھولے نہیں سماتے کہ ہم تعمیر کر رہے ہیں۔نئی بستیاں تعمیر تو ہوں مگر پرانی آبادیوں کو بھی تو مسمار نہ کریں۔ ”دل وہ نگر نہیں جو پھر آباد ہو سکے۔پچھتاؤہو سنو ہو یہ بستی اجاڑ کے“۔وہ یو ں کہ گلی میں ایک نہیں تین تین مکانات زیرِ تعمیر ہیں۔چلو تخریب تو نہیں تعمیر ہے اچھا شگون ہے۔”میں روز ادھر سے گزرتا ہوں لوگ دیکھتے ہیں“۔مگر اپنی گلی ہی میں میری توجہ اتنی باریک بین نہیں۔اسی لئے کہ بائیک پر ہوتا ہوں تو جھپاک سے گزر جاتا ہوں۔پھر دوبارہ سودا سلف لینا ہو یا کسی کام سے جانا ہو تو یہی عالم ہوتا ہے۔مگر اس دن جو بائیک کی ٹینکی میں پٹرول نہ تھا تو محلے میں دکاندار کے پاس دودھ لینے کو پیدل ہی نکل چلا۔پھر یہ ہمارے لئے تو بڑے بہت دکھ کی بات تھی کہ ہمہ وقت تازہ گھوڑے پر گھڑ سواری کرنے والا آج پیدل جاتا ہے۔خیر پیدل چلنے میں سوچ اور فکر کا سود مند کام ہے۔کیونکہ بندہ کے پاس وقت ہوتا ہے کہ وہ دائیں بائیں سیر کرتا جائے۔ہر چیز کو غور سے دیکھے بائیک پر توبس سامنے دیکھنا ہے اگر دائیں بائیں دو چار سیکنڈ ہی دیکھتے رہ گئے تو کسی گڑھے میں جا پڑیں گے یا پھر تیزی میں کسی سپیڈ بریکر پر سے عبث اچھل گزر جائیں گے یا کسی کو ٹھوکر لگا دیں گے۔پیدل چلنے 
میں گردو پیش کے نظاروں پر غور کرنے کا بہت اچھا اور سنہرا موقع ہوتا ہے‘بائیس سال پہلے جب بیرون ممالک سے سیاح یہاں آتے تھے تو وہ پشاور کی سیر موٹر کار میں نہیں کرتے تھے۔ وہ تو گھوڑی تانگوں میں گھوما کرتے تھے۔ کیونکہ اگر میوزم کے پاس سے کار میں بیٹھے ہوئے گزر گئے تو ان کے ہاتھ کیا آئے گا۔ گھوڑے والی بگھی میں تو یہ فائدہ ہوگا کہ میوزم کی عمارت کو آرام سے دیکھتے دیکھتے جائیں گے‘ اس پر تبصرے کریں گے او رآپس میں اس کی ہسٹری جاننے کی کوشش کریں گے۔پھر ان میں تانگے بان بھی تو بول پڑتا ہے۔کیونکہ اس نے بھی انھیں سے سن سنا کر تھوڑی بہت انگریزی بولنا سیکھ لیاہوتا تھا۔میں کہہ رہا تھا کہ گلی میں پیدل جاتے ہوئے میں نے غور کیا کہ ریت کے ڈھیر پربچے بیٹھے کھیل رہے تھے۔وہ ریت سے گھروندے بنا رہے تھے۔مگر انھیں کیا معلوم کہ ان کی یہ کوشش عارضی ہے‘منٹ دو منٹ کے لئے ہے یا زیادہ ہو تو پانچ منٹ کو ہے۔کیونکہ وہاں تو لنٹر ڈالا جارہا تھا۔ ایک دم سے فلش بیک میں مجھے اپنا بچپن یاد آگیا۔جب ہم یونہی گھروندے بناتے۔ پھراس میں ایک آدھ سٹوری بھی زیادہ کرلیتے۔پھراس گھر تک آنے کے راستے بھی بنا لیتے۔پھر سگریٹ او رمیڈیسن کی گتے کی خالی ڈبیوں سے موٹر کار بھی بنا لیتے اور وہاں ریت پر چلاکر گھروندے کے مین گیٹ تک آتے۔اب جہاں عمر کی نقدی ختم ہوئی ہے اور وقت کے مصور نے سیاہ بالوں پر سفید برش پھیر دیئے ہیں تو سوچتا ہوں کہ یہیں سے تو گھر بنانے کی ایک انجانی خواہش اس بچپن کی عمر ہی سے بندہ میں موجود ہوتی ہے۔مگر خواہش کے موجود ہونے سے تو گھر نہیں بن جاتے۔