ایک تشویشناک خبر

یہ خبر نہایت ہی تشویشناک ہے کہ پاکستان سے یومیہ 50 لاکھ ڈالر افغانستان سمگل ہو رہے ہیں۔ شرح مبادلہ میں افغانستان کی کرنسی بہترین  بن گئی ہے۔ افغانستان کیلئے ضروری ڈالرز میں سے آدھے پاکستان سے جاتے ہیں۔ اس سمگلنگ سے افغان حکومت عالمی پابندیوں سے بچنے میں کامیاب  ہو چکی ہے۔ لیکن اس صورت حال کی وجہ سے پہلے ہی معاشی مسائل کا شکار پاکستان کیلئے معاملات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں افغانستان کو روزانہ دس سے پندرہ ملین ڈالر کی ضرورت ہے جس کا آ دھا حصہ پاکستان سے جا رہا ہے۔ اب ا س میں قصور کس کاہے، دیکھا جائے تو اس میں سارا اپنا قصور ہے، افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے جس کی ہر مشکل میں پاکستان نے مدد کی ہے اور اب بھی اس کی مشکلات کو کم کرنے میں مصروف ہے۔ تاہم دوسری طرف سے پاکستان کی مشکلات کا احساس کم ہی نظر آتاہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کو اولین ترجیح قرار دیں اور اس سلسلے میں اولین قدم ڈالروں کی سمگلنگ کو روکنا ہے۔ اگر خلوص نیت ہواور بھر پور منصوبہ بندی کی جائے تو ہر کام ممکن ہے۔ طویل ترین سرحدہونے کی صورت میں اگر چہ پوری طرح سمگلنگ کا قلع قمع کرنا ناممکن ہوگا تاہم اس پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاک افغان سرحد پر آنے جانے والوں کا باقاعدہ ریکار ڈ رکھا جائے اور ا س سلسلے میں یہ دیکھا جائے کہ جو لوگ مختلف کاموں کیلئے پاکستان آتے ہیں وہ واپس بھی جاتے ہیں کہ نہیں۔اب چند دوسرے مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس بات  میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے میونسپل ادارے اپنے کئی فرائض منصبی کی ادائیگی میں غفلت برت رہے ہیں۔ باؤلے کتوں کی ہی بات کر لیتے ہیں نہ صرف چھوٹے شہروں میں بلکہ وفاقی دارالحکومت کے ہر رہائشی سیکٹر میں بھی ان کی بہتات نظر آ تی ہے۔ کئی بزرگ  شہری خواتین اور بچے روزانہ سگ گزیدگی کا شکار ہوتے ہیں اس پر طرہ یہ کہ جب وہ سرکاری ہسپتالوں یا ڈسپنسریوں میں anti rabies کا ٹیکہ لگوانے جاتے ہیں کہ جس کے  فوری طور پر نہ لگوانے سے سگ گزیدگی کے شکار افراد کے پاگل ہو ئے کا خدشہ ہوتا ہے تو انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے پیسوں سے اوپن مارکیٹ سے ٹیکہ خرید لائیں کیونکہ وہ ان کے پاس دستیاب نہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عام شہری ان حالات میں کرے بھی تو کیا کرے کیا یہ ہمارے میونسپل اداروں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ پاگل کتوں کو ٹھکانے لگانے اور اپنی ڈسپنسریوں میں متعلقہ ویکسین کی موجودگی کو لازم بنائے۔ کسی بھی شہر میں کوئی شخص کسی قسم کے تعمیرات بغیر میونسپل ادارے سے اس کا نقشہ منظور کروا ئے  نہیں کر سکتا جس میں مطلوبہ شرائط درج ہوتی ہیں دیکھنے میں آیا ہے کہ اس قانون پر بھی پوری طرح عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ا۔گر ایک سروے کیا جاے تو ثابت ہو جائے گا کہ ہمارے اکثر شہروں میں آگ لگ جانے کی صورت میں وہاں کے میونسپل ادارے کے پاس قابل اعتبار قسم کا فائر بریگیڈ نہیں ہوتا اور آگ بجھانے کے واسطے اسے لامحالہ دوسرے اداروں سے مدد کی درخواست کرنا پڑتی ہے۔ حالانکہ یہ اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ اس کے پاس چوبیس گھنٹے فعال حالت میں فائر بریگیڈ  موجود ہو۔ان چند  ابتداہی کلمات کے بعد اگر درج ذیل اہم فوری طور پر توجہ طلب مسائل کا ذکرہو جائے تو بے جا نہ ہو گا۔عالمی امن کے حصول کیلئے چین جو مخلصانہ کاوش کر رہا ہے اس کی ایک جھلک اقوام متحدہ میں اس کے مستقل مندوب کے اس حالیہ بیان میں نظر آتی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ فریقین یوکرین تنازع جلد ختم کریں اور اس ضمن میں امن مذاکرات دوبارہ شروع کریں۔