کچھ بڑے تو گذشتہ روز سر جوڑ کر بیٹھے تھے مگر مسئلے کا نہ کوئی حل نکلا۔کیونکہ مسئلہ بہت گھمبیر ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنا بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ کچھ ہمارے اپنوں کے ہاتھوں کا رچایا ہوا ڈرامہ ہے۔ جس میں ہماری قوم کا حصہ بہت کم ہے۔کیونکہ باہر کی اقوام نے اس تبدیلی کو واقع کرنے میں بہت اہم اور زیادہ کردار ادا کیا ہے۔جس کا خمیازہ ہم لوگ اپنے وطن میں بے گناہ ہوکر بھگت رہے ہیں۔ سیلاب آیا تو بہت کچھ تنکے تیلوں کی طرح اس میں بہہ گیا۔ہم دیکھتے رہ گئے۔ہمارے اپنے شہر میں موسم نے جو اودھم مچا رکھا ہے وہ خودہماری سمجھ سے باہر ہے۔اکتیس جنوری کو گرم دن تھا۔ ہم سمجھے کہ گرمی نے سٹارٹ لے لیا ہے۔ اس پہلے بھی جنوری کے شروع اور پھر اس سے پیچھے نومبر میں بھی کڑی دھوپ لگنے سے گرما کے اچانک شروع ہوجانے کا گمان ہوا کرتا تھا۔ بارشوں کے نہ ہونے سے گرما کے قبل از وقت آنے اور آ کر چھاجانے کا بارہا یقین ہوگیا۔مگر یہ یقین پھر ختم ہو گیا۔ فروری کے سٹارٹ میں بھی موسمِ گرما کے شروع جانے کا احتمال گزرا مگر پھر وہی سردی۔پشاور کے علاوہ ارضِ وطن کے دوسرے شہروں میں بھی موسم کا یہی طور طریقہ ہے۔اب جانے دنیا میں موسم کے حوالے سے یہ تبدیلیاں کیا گل کھلائیں گی۔ گاہے گرمی او رگاہے سردی اب تو دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ایک دن گھرسے باہر نکلو تو شہریوں نے اکہری قمیضیں پہن رکھی ہوتی ہیں کیونکہ گرمی نے اپنی بے وقت کی انٹری دے رکھی ہوتی ہے۔پھر دوسرے دن دیکھو تو پھر سے انھیں شہریوں نے کمبل کوٹیاں پہن رکھی ہوتی ہیں۔یہ تو عالمی درجہ حرارت میں شدت کامعاملہ ہے۔جس کے ثبوت مل چکے ہیں کہ ہم جو اپنے آپ کو قصور وار سمجھتے تھے اس میں تو ہم پاکستانیوں کا دوش نہ تھا۔ یہ تو دوسرے ملکوں میں آلودگی پھیلانے کا کارن ہوا جس کا انجام ہم نے سیلاب کی صورت میں برداشت کیا۔کیونکہ آلودگی اور دھوئیں وغیرہ کے مسئلوں میں صرف ہم ہی تو ملوث نہیں ہیں۔کرے کوئی او ربھرے کوئی والی بات ہے۔ایک دن دھوپ تلے چارپائی کھینچ کر بیٹھو تو دوسرے دن اسی دھوپ میں بیٹھے بیٹھے چارپائیں کھینچ تان کر چھاؤں میں لے جانا پڑتی ہیں۔ کبھی دھوپ میں ایسی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے کہ دھوپ جو واحد آسرا ہوتی ہے وہ سہارا بھی چھن جاتا ہے۔وہ ہلال رفیق کا شعر ہے کہ ”منعقد کتنے سیمینار ہوئے۔ مسئلے کا نہ کوئی حل نکلا“۔حل نکلے بھی کیسے۔اس کے لئے کتنا فنڈ مختص کریں گے۔آگے کھانے جوگی روٹی نہیں اور ان باتوں پر ہم اپنا کتنا روپیہ خرچ کر دیں گے۔۔ موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنا تو ہمارے بس میں نہیں ہے ۔اس کے لئے ہمیں آلودگی پھیلانے سے رک جانا ہوگا۔مگر ہم اس وقت آلودگی کو پھیلانے سے رک جائیں کہ ہمیں معلوم ہوکہ یہ جو آلودگی ہے اور اس کا جو نام لیا جاتا ہے یہ آخر ہے کیا چیز۔ اس کے لئے تو بھاری رقوم جاری کرنا ہوں گی۔تاکہ اس سلسلے میں عوام سے رابطہ کرکے آگاہی مہم چلائی جائے اور ان کو آگاہی دلائی جائے کہ جو آپ کر رہے ہیں وہ نہ کریں۔لیکن ہمارے ہاں تو ہر طرح کی مہم چلائی گئی مگر ہم کہاں باز آئے۔اگر کہیں صفائی کا عملہ نہیں آتا تو وہاں کے مکینوں کے پاس لا علمی کی وجہ سے یہ حل ہوتا ہے کہ وہ کوڑے کو جلا لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ زیرِ زمین کوئی گڑھا سا بنا کرسارا گند وہاں انڈیل دیں۔مگر ان کو سب سے آسان کام یہی لگتا ہے وہ کوڑا جلا کر گیسیں پیداکریں جو ہوا میں مل کر لوگوں کے لئے سانس کی بیماریوں کے زیادہ ہو جانے اور موسموں کے بے وقت تبدیل ہونے کا سبب ہوں۔حالانکہ اگر کوڑا یونہی پڑا رہے تو اتنا نقصان دہ نہیں جتنا کہ اس کو جلا ڈالنا مضر ہے۔اس قسم کی آلودگی سے بچ گئے تو زندہ رہ پائیں گے وگرنہ تو ہم خود ہی جان کر اپنے ماحول اوراپنی سانسوں کوزہر آلود کر رہے ہیں۔اگر حالت یونہی قائم رہی تو موسمی تبدیلیاں ہمارے لئے زہرِ قاتل ثابت ہو سکتی ہیں۔