ڈ سپلن کیا ہے؟   (سید ابو یاسر)

کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی کا راز وقت کی قدر کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانے میں ہے دوسری صورت میں اگر وقت کی قدر نہ کی جائے اور وقت ضائع کرنا ایک قومی خصلت یا عادت بن جائے تو پھر ترقی کی بجائے مسائل اور مشکلات سے واسطہ پڑنا یقینی نتیجہ ہے موجودہ حالات میں چین کی ترقی اور پوری دنیا پر اس کے راج کرنے کی بڑی وجہ یہاں پر وقت کی پابندی کو اہمیت دینا ہے بڑے لیڈر ہوں یا پھر عوام شہری ہر کوئی وقت کی قدر جانتا بھی ہے اور کرتا بھی ہے اس حوالے سے مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمداپنی ایک نشری تقریر میں بیان کرتے ہیں کہ واقعی زندگی مصروف ہو گئی ہے واقعی اس کے تقاضے بڑے ہو گئے ہیں لیکن جب انسان انسان کیساتھ رشتے میں داخل ہوتا ہے تو سب سے بڑا تحفہ اس کا وقت ہی ہوتا ہے۔جب آپ کسی کو وقت دیتے ہیں یا کوئی آپ کو وقت دیتا ہے اپنا لمحہ عطا کرتا ہے تو آپ حال میں ہوتے ہیں اس کا تعلق ماضی یا مستقبل سے نہیں ہوتا‘جب آپ معمولی کام کو اہمیت نہیں دیتے اور لمبا سا منصوبہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اپنا ذاتی اور انفرادی تو پھر آپ سے اگلا کام چلتا نہیں۔کافی عرصہ پہلے میں چین گیا تھا یہ اسوقت کی بات ہے جب چین نیا نیا آزاد ہوا تھا‘ہم سے وہ ایک سال بعد آزاد ہوا ان سے ہماری محبتیں بڑھ رہی تھیں اور ہم ان سے ملنے چلے گئے‘افریقہ اور پاکستان کے کچھ رائٹر چینی حکام سے ملے‘ایک گاؤں میں بہت دور پہاڑوں کی اوٹ میں کچھ عورتیں بھٹی میں دانے بھون رہی تھیں‘ دھواں نکل رہا تھا‘ میرے ساتھ شوکت صدیقی تھے کہنے لگے یہ عورتیں ہماری طرح سے ہی دانے بھون رہی ہیں جب ہم ان کے پاس پہنچے تو دو عورتیں دھڑا دھڑ پھوس، لکڑی جو کچھ ملتا تھا بھٹی میں جھونک رہی تھیں اور کڑاہے میں کوئی لیکوڈ (مائع) سا تیار کر رہی تھیں ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ کیا کر رہی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے سٹیل بنانے کا ایک طریقہ اختیار کیا ہے کہ کس طرح سے سندور ڈال کرلوہے کو گرم کرنا ہے۔ یہ عورتیں صبح اپنے کام پر لگ جاتیں اور شام تک محنت اور جان ماری کیساتھ سٹیل کا ایک ”ڈلا“یعنی پانچ چھ سات آٹھ سیر سٹیل تیار کر لیتیں۔ ٹرک والا آتا اور ان سے آکر لے جاتا۔انہوں نے بتایا کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سٹیل کے بدلے لے لیتے ہیں میں اب بھی کبھی جب اس بات کو سوچتا ہوں کہ ان کی کیا ہمت تھی ان کو کس نے ایسے بتا دیا کہ یہ کام ہم کریں گی تو ملک کی کمی پوری ہوگی چھوٹا کام بہت بڑا کام ہوتا ہے اس کو چھوڑ انہیں جا سکتا جو کوئی اسے انفرادی یا اجتماعی طور پر چھوڑ دیتا ہے مشکل میں پڑ جاتا ہے۔“اس منتخب تحریر کا حاصل مطالعہ وقت کی قدر و قیمت کا احساس کرنا ہے اور یہ تسلیم کرنا ہے کہ کسی قوم کے افراد الگ الگ جو وقت ضائع کرتے ہیں بحیثیت مجموعی اس کے منفی اثرات جلد یا بدیر سامنے آکر ہی رہتے ہیں۔جس طرح ایک ایک پائی مل کر جمع پونچی تشکیل دیتی ہے اسی طرح ایک ایک لحظہ مل کر وقت کا ایک طویل دورانیہ بنا دیتا ہے یعنی ایک ایک لحظے کی قدر کرنا ضروری ہے۔