اسلام میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا تصور 

انسٹیٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز(آئی آر ایس) پشاور کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں ' 'اسلام میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا تصور'' کے موضوع پر تعلیمی سیمینار منعقد کیا گیاجس کے مہمان خصوصی پشاور میں متعین امارت اسلامی افغانستان کے قونصل جنرل حافظ محب اللہ تھے جب کہ اس سیمینار کی صدارت پشاور کی معروف دینی درس گاہ جامعہ عثمانیہ پشاورکے بانی اور مہتمم اعلیٰ مفتی غلام الرحمن نے کی۔سیمینار کے دیگر مہمان مقررین میں پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم سابق صدر تنظیم اساتذہ پاکستان،پروفیسر ڈاکٹر ناہید علی صاحبہ (جامعہ پشاور)اور چیئرمین آئی آر ایس ڈاکٹر محمداقبال خلیل شامل تھے۔اس حقیقت سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہوگاکہ خواتین کی تعلیم مردوں کی تعلیم سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ خواتین کو اپنے بچوں، خاندان اور عام طور پر معاشرے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے۔ خواتین کو اساتذہ، ڈاکٹرز،نرسز اور دیگر پیشہ ور بننے اور خواتین کی تعلیم کے فروغ اور خواتین کی صحت سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اسلامی نظریہ حیات میں مرد عورت کی کوئی تفریق نہیں ہے بلکہ تہذیبوں اور تمدن کی ترقی میں مرد و خواتین کو ایک جتنی اہمیت دی گئی ہے۔ درحقیقت دنیا کا نظام چلانے کے لئے مرد و عورت دونوں کا کردار اہم ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں کو معاشرے کی ترقی کا یکساں ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ ایک صحت مند قوم کی تعمیرکے لئے مردوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمیں بچیوں کو تعلیم کے یکساں مواقع بھی فراہم کرنا ہونگے۔یہ درست ہے کہ عورت کا اصل محاذ اس کا گھر اور اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت ہے لیکن خواتین کو اپنی استعداد کے مطابق گھر سے باہر بھی اپنی صلاحیتیں منوانے کا حق حاصل ہے۔اگر وہ چاہے توزراعت، طب،تعلیم اور کسی بھی پیشے میں خواتین کی حدود کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے سکتی ہیں۔ بعض اوقات حالات خواتین کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کرتے ہیں اس کیلئے خواتین کو انکی ضرورت کے مطابق تعلیم و تربیت کا اہتمام معاشرے کا فرض ہے۔ جمہوراُمت کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ مرد کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم بھی ضروری اور اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ایک پڑھی لکھی خاتون ایک اچھے خاندان کی پرورش کرسکے گی‘علم کا حاصل کرنا مرد و خواتین دونوں پر فرض قرار دیا گیا ہے،اس حکم میں کوئی تخصیص نہیں ہے البتہ خواتین کو جداگانہ بہترین تعلیمی ماحول کی فراہمی ضروری ہے۔مردوخواتین کے لئے الگ الگ اداروں کے ساتھ ساتھ ان کے نصاب کا جائزہ بھی لیا جانا ضروری ہے۔امارت اسلامیہ فغانستان کے قونصل جنرل حافظ محب اللہ کامتذکرہ بالا سیمینار سے خطاب میں کہناتھاکہ جنگ زدہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ اسے عارضی طورپر ملتوی کیا گیا ہے اور التوا کا مقصد تعلیمی نظام اور نصاب میں اصلاحات لانا ہے۔