پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے منفی اثرات آہستہ آہستہ ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ چند روز قبل مقامی دوا ساز کمپنیوں نے اعلان کیا تھا کہ انہیں پیداواری لاگت کے بحران کا سامنا ہے جس کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں تیزی سے آنے والی کمی ہے اور ان حالات میں ادویات کی تیاری جاری رکھنا ان کے لئے مالی طور پر ممکن نہیں رہا۔ پاکستان میں دوا سازی کی صنعت کو عرصہ دراز سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ احتجاج کرنے والی دوا ساز کمپنیوں کے مطابق ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) پیداواری لاگت میں مسلسل اضافے کو پورا کرنے کے لئے ادویات کی ریٹیل قیمتوں میں اضافے کی اجازت نہیں دے رہی جو اُن کے بقول جائز مطالبہ ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال مایوس کن ہے اور معیشت مسلسل خود مختار ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے۔ درآمدات میں تاخیر نے دوا سازی کی صنعت کو نقصان پہنچایا ہے جسے بین الاقوامی مارکیٹ سے فعال فارماسیوٹیکل اجزأ (اے پی آئی) درآمد کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ڈالر کی قوی قدر کے ساتھ مل کر‘ اِس مسئلے نے پیداواری لاگت کو بڑھا دیا ہے۔ مثالی طور پر صنعتیں مینوفیکچرنگ سامان کی لاگت پورا کرنے کے لئے فروخت کی قیمت میں اضافہ کر سکتی ہیں لیکن اس معاملے میں‘ بڑا مسئلہ ادویات کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے پر حکومت کا اصرار ہے۔ ادویات کی قیمتوں کا ازسرنو تعین اور اور ضروری ادویات کی قیمتوں کو ایک خاص حد تک رکھنا متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے بات چیت (مذاکرات) کے ذریعے یقینی بنایا جاسکتا ہے تاکہ ادویات سستی اور قابل رسائی رہیں۔ ادویات کی قلت اپنی جگہ بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی حقیقت سے انکار اور اِس مسئلے کی شدت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ حکومتی سطح پر فیصلوں پر تاخیر حاوی رہتی ہے جسے ’سرخ فیتہ (بیوروکریٹک ہرڈلز)‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے اِس قسم کی رکاوٹیں عام آدمی کے لئے تکلیف کا باعث ہیں۔ اگر حکومت قیمتوں میں اضافہ نہیں کرتی تو دوا ساز کمپنیاں اپنا کام روک دیں گی جس سے ضروری ادویات کی عدم دستیابی سے بحرانی صورتحال جنم لے گی اور اِس سے عوام کی مشکلات میں یقینی اضافہ ہوگا خاص طور پر وہ گھرانے جن کے عزیز جان لیوا بیماریوں سے لڑ رہے ہیں‘ اُن کے لئے ادویات کی آئے روز بڑھتی ہوئی قیمتیں اور قلت انتہائی تشویش و پریشانی کا باعث ہے۔ اِس صورتحال میں متعلقہ حکومت ادارے (ڈریپ) کو درمیانی راستہ تلاش کرنا چاہئے۔ حکام کو مینوفیکچرنگ کمپنیوں کے لئے رکاوٹیں پیدا کئے بغیر لوگوں کی ضروریات پورا کرنا چاہئیں۔ گزشتہ سال مقبول برانڈ پیناڈول کی کمی نے صحت کے شعبے کو ایک ایسے وقت میں مفلوج کر دیا تھا جب نہ صرف ہسپتال ڈینگی مریضوں سے بھرے ہوئے تھے بلکہ سیلاب سے متاثرہ لاکھوں افراد عارضی امدادی کیمپوں میں طبی امداد کے منتظر تھے۔ جب ادویہ ساز کمپنیوں کے پاس بریک ایون پوائنٹ تک پہنچنے کے لئے کافی وسائل نہیں ہوتے تو انہیں آپریشن روکنا پڑتا ہے اور اگر مقامی کمپنیاں ضروری ادویات کی تیاری بند کر دیتی ہیں‘ تو اس سے ملک میں صحت کا بحران شدت اختیار کر جائے گا۔ پہلے ہی کینسر اور دل کی بیماریوں کے علاج کے لئے ضروری ادویات کی شدید قلت ہے۔ انسولین اور ذیابیطس (شوگر) کی دیگر دوائیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ خدشہ ہے کہ اِس مسئلے کے حل میں تاخیر سے ذخیرہ اندوز اور ادویات کی بلیک مارکیٹنگ کرنے والے فائدہ اُٹھائیں گے جبکہ پریشان حال عوام کے پاس کوئی آپشن نہیں رہا ماسوائے یہ کہ وہ اپنے پیاروں کی زندگیاں بچانے والی منہ مانگی قیمتوں پر (مہنگے داموں) ادویات خریدیں۔ سال 2019-20ء میں کورونا وبا کے دوران بھی اِسی قسم کی افراتفری کا ماحول دیکھنے میں آیا جب ضروری ادویات کی قیمتیں ہزاروں سے لاکھوں روپوں تک جا پہنچی تھیں۔ سال دوہزار بائیس کی ’ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی)‘ کے مطابق پاکستان میں انسانی ترقی تنزلی کا شکار ہے اور ایک سال کے دوران اِس میں پینسٹھ درجے تنزلی ہوئی ہے۔ پاکستان میں اوسط عمر 65 سال ہے جو دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے کم ہے جبکہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے اور قلت سے پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال سے عیاں ہے کہ جلد کوئی بہتری (تبدیلی) نہیں آ رہی۔اور یہ تو تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ معیشت سے متعلق سست اور غلط فیصلوں کے نتائج بحرانوں کی صورت برآمد ہوتے ہیں۔عوام کے نکتہئ نظر سے یہ بات تعجب خیز ہے کہ ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے کوئی بھی سیاسی جماعت عوام کی نمائندگی اور اِن کے حقوق بارے آواز بلند نہیں کر رہی۔ ملک کو درپیش عمومی معاشی بحران میں ادویہ ساز اداروں کی مشکلات و مؤقف سننا اور بالخصوص ادویات کی قلت کا خاتمہ اور قیمتوں میں اعتدال و کم سے کم اضافے کے ذریعے عوام کو درپیش ”نہایت ہی حساس و اہم مسئلہ حل کرنے کی فوری ضرورت ہے“ کیونکہ اِس قضیے (معاملے) کا تعلق زندگی اور موت سے ہے۔