میں توکہتا ہوں بندے کے پاگل ہوجا نے کا اندیشہ ہے۔ایک یلغار ہے جس کے آگے آنا ہے اور سینہ تان کر کھڑے ہونا ہے۔پھر دوسرا کوئی آپشن ہے بھی نہیں۔ بھاگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ معلومات کا یہ حملہ ہر کس و ناکس کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ بچہ ہے کہ بوڑھا ہے یا جوان ہر اس کے جادو میں از خود گرفتاری دے رہا ہے۔کیاکہا ہے مولانا محمد حسین آزاد نے کہ ”جب رواجِ عام کا راجہ ہولی کھیلتا ہے تو بڑے بڑے معقول اور وضعدار اشخاص اس بات کی چھینٹیں فخر سمجھ کر سر اور دستار پر لیتے ہیں“۔ یہ موبائل ٹیکنالوجی تو اب رواجِ عام سے بھی اوپرجا چکی ہے مگر آج تو باہر کی دنیا سے بلکہ دنیاؤں سے جو جدید انفارمیشن آ رہی ہیں وہ سب موبائل کے ذریعے ہم تک پہنچ رہی ہیں۔سمجھ نہیں آتا کسے یاد رکھیں کسے بھول جائیں۔یاد بھی رکھنا مشکل اور بھول جانا بھی گراں ہے۔موبائل کو وہ کون سے پیشہ سے منسلک ہوگا جو استعمال نہ کرتا ہو۔ یہ تو ہر آدمی کو اس کی ضرورت کا کام آسان کر کے اس کے آگے تھالی میں تیار اور دیدہ زیبی کے ساتھ پیش کر دیتا ہے۔موبائل کے ہر ایپ کے اپنے اپنے صارف ہیں۔ جو صارفین وٹس ایپ سے منسلک ہیں ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچتا کہ وہ دوسری ویب سائٹس سے فائدہ اٹھائیں۔بس ایک ہی ایپ میں جوں گھسے ہیں تو اسی کے ہو رہے۔بچوں کی اپنی ویب سائٹس ہیں اور نوجوانوں او رہر ذہن کے مطابق اس طلسمی پیالے کے فوائدہیں۔خاص طور پر یہ اگر فائدہ دیتا ہے تو آج کل طالب علموں میں ان کی پڑھائی کے حوالے سے یہ ڈیوائس زیادہ سود مند ہے۔اب یو ٹیوب ہے تو اس کو دیکھنے والے کے پاس بھی اتنا وقت نہیں کہ وہ دوسری ویب میں بھی ہاتھ مارے۔انفارمیشن کے نام پر باہر ملک تو چھوڑ اپنے ہی ملک کے اندرون اور اندرونِ خانہ سے وہ وہ رپورٹیں اور مووی کلپ اپ لوڈ ہوکر سچ پیش کرنے کے نام پرآنکھوں کی تواضع کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔آج کے انسان کا دماغ بہت کھل چکا ہے۔اب اگر یہ عالم ہے تو آئندہ زمانے میں اس ٹیکنالوجی کے میدان میں کون کون سی فتوحات ہونے جا رہی ہیں یہ سوچ کردماغ ماؤف ہونے لگتا ہے۔ایسا کوئی نہ ہوگا کہ موبائل پر پیش آنے والی ہر ویب کا لطف اٹھاتا ہو۔کیونکہ اس کے لئے تو ڈھیروں بلکہ لاکھوں منٹ چاہئیں۔ پھر یہا ں ہر انسان اتنا مصروف ہو چکا ہے کہ اس کے پاس اپنی ذاتی زندگی کے شب وروز کو گزارنا گراں تر ہوا جاتا ہے۔ایسے میں وہ اگر انفارمیشن کے نام پر جدیدٹیکنالوجی کو استعمال میں لا کر اپنی ذہنی استعداد اپنی قابلیت کو بڑھاتا ہے تو اس کو داد دینے کو جی کرتا ہے۔اگرپچھلے زمانوں میں ٹرانسپورٹ ہو جائیں تو سوچیں کہ پہلے یہ سب کچھ ہمارے پاس تو کیا باہر کی ذہین اقوام کے پاس بھی نہ تھا۔ مگر جن کے پاس نہ تھا انھوں نے کیا کچھ بنا ڈالا ہے۔پھر ہم نے کیا کارنامہ کیا۔ہم نے صرف باتیں بنائیں ہیں۔بن چاہے اتنا خزانہ موبائل کے ذریعے اپ لوڈ ہو کر ہر گھر میں ڈاؤن لوڈ ہو رہا ہے کہ بندہ انفارمیشن کے اتنے بڑے سیلابی ریلوں سے بھی تنگ آنے لگا ہے۔بلکہ ہم تو موبائل کو استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔اب ہم یہ کہنے کے قابل نہیں رہے کہ یہ بیرونی ممالک کی سازش ہے کہ وہ ہم کوموبائل میں الجھا کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔ گذشتہ زمانے کے بچوں اور آج کی اس نئی پود کا موازنہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کے بچے اتنے ذہین نہ تھے کہ جتنے آج کے ڈیجیٹل دور کے بچوں کا آئی کیولیول اپنی اونچائیوں کو پہنچا ہوا ہے۔ گذشتہ روز کے تو چھوڑیں آنے والے کل کے یہ بچہ لوگ جانے کتنے روشن دماغ کے حامل ہوں گے۔جس کی چار جماعت تعلیم ہے وہ بھی موبائل کو اس طرح استعمال کرتا ہے کہ بڑے بڑوں کے دماغ ان کے آگے فیل ہو جاتے ہیں۔ان کے آگے تو ان کے بڑے بھی اکل کھرے اور گاؤدی بن جاتے ہیں۔بلکہ میں کہوں موبائل کو استعمال کرنے کے لئے اب تو تعلیم کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ بچے جو ابھی سکول نہیں گئے ان کی عمر سکول جانے کی نہیں وہ بھی موبائل کو استعمال کرنے میں اتنے ماہر ہیں کہ اپنے مطلب کے کارٹون اور بچوں کی فلمیں وغیرہ بہت آسانی سے لگا لیتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات گھرکے بڑے اگر کسی الجھن میں پھنس جائیں تو وہ بچو ں کوپاس بٹھا کر ان سے اس الجھاؤ کا حل نکلوا لیتے ہیں۔ پھر وہی بات کہ صرف اگر وٹس ایپ کو لے کر بیٹھیں تو اس کو بھی بھرپور سمجھنے کے لئے اچھا خاصا وقت چاہئے۔ پھر بندہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے اس قابل نہیں ہوتا کہ اگر وٹس ایپ ہی استعمال کرتا ہوتو اس کو بھرپور طریقے سے جیسا اس کا حق ہے استعمال کر پائے۔