صحت مند معاشرے (سماج) کی تعمیر کے لئے عالمی سطح پر 3 پیمانے وضع (تشکیل) دیئے گئے ہیں اور انہیں تین پیمانوں کے معیار و مقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی معاشرے کے صحت مند یا لاغر ہونے کی نشاندہی کی جاتی ہیں اِن میں پینے کے لئے میسر صاف پانی‘ صفائی ستھرائی کی صورتحال اور حفظان صحت کے اصول شامل ہیں جنہیں اصطلاحاً واش (ڈبلیو اے ایس ایچ) کہا جاتا ہے بدقسمتی سے‘ یہ ایک ایسا تصور ہے جو حقیقت سے بہت دور ہے اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک بچہ سکول میں پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں رکھتا اتنی ہی تعداد میں بچوں کو بیت الخلاء اور صفائی ستھرائی کی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل درآمد کیسے ہو سکتا ہے جبکہ عوام الناس کو اِس کے بارے میں شعور ہی نہ ہو یہ شعور کسی ملک یا معاشرے میں بچوں سے سلوک کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے اور اگر اِس حوالے سے پاکستان کے قومی منظرنامے کو دیکھا جائے تو بچے کام کاج کی جگہوں سے لیکر کوڑا دانوں تک ہر اُس جگہ دکھائی دیتے ہیں‘ جہاں اُنہیں اپنی عمر کے حساب سے نہیں ہونا چاہئے اور یہ واقعی ایک خوفناک صورتحال کی عکاسی ہے جو صرف پاکستان جیسے پسماندہ یا ترقی پذیر ممالک ہی کیلئے بلکہ ترقی یافتہ یا بہتر معیشت رکھنے والے ممالک کیلئے بھی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے بچوں کو اُن کی مالی و سماجی حیثیت کے مطابق نہیں اور نہ ہی ضرورت مند کے روپ میں دیکھا جانا چاہئے بلکہ یہ مستقبل کے معمار ہیں اور دنیا کی ترقی سے عیاں ہے کہ جن ممالک نے اپنے ہاں انسانی (افرادی) وسائل میں سرمایہ کاری کی‘ وہی ترقی کے زینے پر چڑھتی چلی گئیں۔ پینے کے صاف پانی کی کمی دور کرنا اور محفوظ و آلودگی سے پاک ماحول کی فراہمی کا مطلب و مقصد یہ ہے کہ بچوں کی صحت خطرات سے دوچار نہ ہو اُنہیں یکساں معیاری تعلیم و تربیت کا حق دیا جائے اور بالخصوص کورونا وباء کے بعد پیدا ہوئی معاشی مشکلات کے دور میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے فرض سے غفلت نہ برتی جائے۔ پینے کے صاف پانی‘ صفائی ستھرائی اور مناسب حفظان صحت پر مبنی عالمی پیمانہ اپنی ذات میں اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اِس پر حقیقی عمل درآمد نہ ہو بالخصوص لڑکیوں کیلئے یکساں و مساوی محفوظ‘ جامع تعلیمی ماحول کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ پاکستان سمیت ترقی پذیر دنیا کے بہت سے حصوں میں صفائی ستھرائی کی سہولیات کی کمی لڑکیوں کی تعلیم و خواندگی کی راہ میں حائل رکاوٹ ہے سماجی دباؤ اور لاقانونیت کی وجہ سے بھی والدین اپنی بچیوں کو سکول بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ کسی ایسے سکول میں بچیوں کو بھیجنا کون پسند کرے گا جہاں بیت الخلاء کی سہولیات نہ ہوں یا نہ ہونے کے برابر ہوں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے مطابق کم عمر بچے آج بھی مناسب بیت الخلا ء اور صفائی نہ ہونے کی وجہ سے مر رہے ہیں۔جن ممالک میں تنازعات اور جنگیں ہیں وہاں خواتین اور بچوں کی اموات نسبتاً زیادہ ہوتی ہیں۔ پینے کا صاف پانی ملنا‘ اِن دیہی علاقوں میں رہنے والے بہت سے لوگوں کے لئے خواب جیسا ہے‘ دنیا کو بیدار ہونے اور یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ بچوں میں سرمایہ کاری انسانوں اور کرہ ارض کے مستقبل کے لئے اہم ہے۔ ہمیں ایک نئی نسل کی ضرورت ہے جو تعلیم یافتہ ہو اور اپنے تمام شعبوں میں ان تعلیمی مہارتوں کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو جس کی انہیں ضرورت پڑے گی۔