(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعرو‘ادیبو‘دانشورو‘تخلیق کارو‘فنکارو سنو! یہ ملک صرف وڈیروں‘جاگیرداروں‘صنعت کاروں‘ تاجروں‘سیاستدانوں‘وزیروں‘مشیروں کا ہے ہمیشہ یہی لوگ اسمبلیوں میں جاتے ہیں اور یہ صرف ا پنے مفادات کے قوانین اور پالیسیاں بناتے ہیں یہاں فقط انہی کی موج لگی ہوئی ہے‘ اسمبلیوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘کوئی عام شخص‘کوئی اہل علم‘دانشور‘ادیب کابینہ کا حصہ نہیں بن سکا‘وطن عزیزمیں کہیں بھی فلاح کی بات ہو تو یہاں بھی اپنی اپنی پارٹی کے قریبی افراد‘اپنے عزیزو اقارب ہی کو نوازا جاتا ہے۔فلاحی سکیمیں‘بے نظیر انکم سپورٹ‘ہیلتھ کارڈ‘پنجاب رائٹرفنڈہو یاحکومتی وظائف یہ امداد بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔ بغیر اثرو رسوخ‘آپ ان سکیموں سے مستفید نہیں ہو سکتے‘بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ بے سہاروں‘ بیواؤں‘غریبوں کے مسائل کی شنوائی ہو‘پچھلے دنوں ایک شاعرہ کے حالات کے حوالے سے ہم نے کالم بھی لکھا،متعلقہ اداروں میں درخواست بھی دی،اکادمی ادبیات پاکستان، سابق نگران وزیر اعلیٰ سے لے کر گورنر اور متعلقہ وزارت تک بھی آواز پہنچانے کی کوشش کی مگر صرف ایک ادارے سے ”جواب“ آیا۔ اکادمی ادبیات کے کارپردازوں نے کہا: ”ہم صرف اس شاعر ادیب کو امداد مہیا کرتے ہیں جس کی کوئی کتاب چھپی ہوئی ہو یعنی صاحبِ کتاب ہی امداد کا مستحق ہے وغیرہ وغیرہ۔اللہ کے بندو! جس کے گھر میں چولھا نہ جلتا ہو،جسے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں اسکی کتاب کیسے شائع ہو سکتی ہے ایسے بے تکے اور من پسند رولز بنانے والوں سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔ایسے رولز کی پامالی تو یوں ہورہی ہے کہ اگر کسی کے پاس پیسہ ہے تو وہ دوسروں سے کتاب لکھوا کر شائع کر لیتا ہے اور یوں وہ رائٹر فنڈ سے امداد کے علاوہ اکادمی ادبیات سے وظیفہ کیلئے بھی اپلائی کرلیتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے سب کچھ مل بھی جاتا ہے۔ اس طرح کئی دو نمبر اہل قلم کے وظائف بھی لگے ہوئے ہیں۔اس کے برعکس مضافات میں رہنے والے اہل قلم،جو عزت نفس کو مجروح نہیں ہونے دیتے اور اپنے حالات کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتاتے اگر کسی طرح وہ کوئی درخواست بھیج بھی دیں تو انکی کوئی شنوائی نہیں ہوتی،نہ ہی انکی کوئی سنتا ہے۔ہم نے نگران وزیرا علیٰ پروفیسر حسن عسکری کو مخاطب کر کے کالم لکھاتھا کہ پروفیسر وزیراعلیٰ عارضی طور پر اس نشست پر آکر کم از کم اس طرح کے امدادی کاموں کے لئے کچھ تو کرے گا،لیکن کسی نے کوئی کان نہ دھرا۔البتہ اکادمی نے ہماری درخواست پر یہ ضرور کورا جواب دیا کہ رولز میں ایسی کوئی شق نہیں کہ کسی شاعر ادیب کی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کیلئے کوئی امداد کی جائے‘سابق وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اہل قلم کانفرنس کے موقع پر کروڑوں کا فنڈ دیا۔عرفان صدیقی نے کہا یہ ادیبوں،شاعروں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو گا۔وہ فنڈز کہاں خرچ ہو رہے ہیں؟کن کو امداد دی جارہی ہے؟ کچھ علم نہیں۔ کہنے والے تو کہتے ہیں صرف انہی لوگوں کو نوازا جاتا رہا جن کی رسائی عرفان صدیقی تک تھی۔عرفان صدیقی نے بھی اپنے منظور نظر افراد کو ادبی اداروں میں تعینات کرایایا پھر اپنے آخری ایام میں اپنی کتاب سرکاری ادارے سے نہ صرف شائع کرائی بلکہ اس کی کئی شہروں میں تقاریب بھی کرائیں گویاانہوں نے بھی صرف اپنی یا اپنے بھائی کی پروجیکشن پر توجہ صرف کی۔مضافات میں زندگی بسر کرنے والے کئی اہل قلم نہایت کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک شاعر نے تواپنی ساری عمر شاعری پر صرف کی،اسکی رہائش کیلئے اپنا مکان تک نہیں تھا۔اسکی وفات کے بعد اسکی بیوہ بھی عالم بیماری میں رخصت ہو گئی،پیچھے اس کی ایک بیوہ بیٹی رہ گئی اب اسکے مکان کا کرایہ کون ادا کرے؟ایسے نفسا نفسی کے دور میں قریبی رشتہ دار بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
گورننس کے خلا: کیا کیا جائے؟
مہمان کالم
مہمان کالم
مثبت اصلاحات بہترین نتائج کی حامل
مہمان کالم
مہمان کالم
مرے ہوئے کو مارنا ؟
مہمان کالم
مہمان کالم