سڑکیں دُھل کر کیا نکھریں گی یہاں تو اور گند مچ جاتا ہے‘بارش تیز ہو تو الگ رولا اور دھیمی آنچ کا باران ہو تو جدا لانجا۔وہ اور ہوں گے جو شہر ہوں گے اور وہاں ابرِ باراں سے ماحول میں خوشگواری اور نتھار آ جاتا ہوگا مگر ہمارے پھولوں کے شہر میں تو ان برساتوں میں جیسے ببول کے کانٹے زمین سے ابھر آتے ہوں‘ جہاں پہلے سے مٹی کے ڈھیر ہوں وہاں تو گندگی کا اور ہی عالم ہوتا ہے کیچڑ سے تھپی ہوئی سڑکیں راستے گند گریل سے چٹے ہوئے‘غرض شہر سبزہ و گل کا نام ہی تو باقی ہے اور جانے کب سے ہے مگر اب تو وہ سبزہ وہ گل و گلزار گئے خاک ہوئے‘ اب ہر جا ہر سو گندگی کے ڈھیر دعوتِ مژگاں کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔سڑکوں پر گڑھے پہلے سے پڑے ہوتے ہیں اور زیادہ گہرے اور چوڑے ہو جاتے ہیں پھر یہاں کسی نئی بارش سے تو مزید کھڈوں کی تخلیق ہوتی ہے وہ تو اچھا ہوا کہ اس سال بارشوں نے تواتر سے اپنے رنگ نہیں دکھلائے وگرنہ تو شہر کا شہر داخلِ زنداں ہوتا اور اس میں رہ کر کالم کے بجائے زندان نامہ کی کتاب لکھنا پڑتی‘سرکاری افسران اگر دھوپ کے موسم میں گھوم پھر کر دیکھیں تو ان کو معلوم ہو کہ ہر گلی کوچے میں گڑھے اور کھڈے اور ناجائز بنے ہوئے سپیڈ بریکر اس کثرت سے ہیں کہ وہ غلام محمد قاصر کا شعر یاد آتا ہے جو انہوں نے برسوں پہلے کہا تھا ”وہ ایک شخص جو معمار نظر آتا ہے۔ شہر کاشہر ہی مسمار نظر آتا ہے“ سنا ہے مگر دیکھا نہیں۔سنا اس لئے کہ ریڈیو کان لگایا کرتے تھے مگر اب تو ٹی وی پر بھی دیکھیں تو خبرناموں کے بجائے سیاست نامہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے‘سنا یہ تھا کہ باہر کے ملکوں کی سڑکیں بارش میں دھل کر نکھر جاتی ہیں اور جیسے شیشہ ہو اس طرح صاف ہوجاتی ہیں مگر یہاں تو اور ہی سماں ہے جو اور کہاں ہے۔وہ ایبٹ آباد کے شاعرسلطان سکون کا شعر ہے ”کسی کو عشق کے انجام سے ڈرانا ہو تو اس کے سامنے میری مثال رکھ دینا“یعنی مقصد یہ ہوا کہ صاف ستھرے ملکوں میں اگر غلاظت او رگندگی اور آلودگی کی بات ہو تو ان سٹوڈنٹس کو مثال کے لئے ہمارے شہرو ں کے نام بتلائے جاتے ہیں انہیں سکولوں کالجوں میں کہا جاتا کہ جاؤوہاں اور صفائی کے الٹ گندگی کیا ہوتی اس کو دیکھ کر آؤ۔اصل میں علم حاصل کرتے وقت جب ایک چیز کا الٹ معلوم نہ ہو تو وہ سیدھی چیز سمجھ نہیں آتی بلکہ اس شعر کا سا معاملہ ہوجاتا ہے کہ ”اس عشق میں سب نقشہ الٹانظر آتا ہے۔مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے“پورے پشاور میں گھوم جائیں کہیں کہیں اگر دکھائی دے جائے تو دے جائے وگرنہ تو ہر سو اس بارش میں کیچڑ تھپی ہوئی ملے گی۔ اتناکہ بعض سڑکوں کی تعمیر اس وضع پر کی گئی ہے کہ یہاں اگر نالہ بند ہو جائے تو پانی سڑک پر ابل کر جمع ہواو ربعض راستوں کی شکل اس طرح ایجاد کر دی گئی ہے یہاں اگر مینہ برسے تو پانی روڈ سے ہٹ کر کہیں اور جانے نہ پائے۔سو ان راستوں سے کوئی شہری بھی گزر نہ پائے وہ سڑک کی دو اطراف سائیڈوں سے شلوار کے پانچے اٹھائے جائے او رآئے۔ایسے میں کسی کے کپڑے بھلا کب صاف رہ سکتے ہیں۔ پھر جو ان راستوں پر اگر چل کر آسکنے والے آتے ہیں تو ان کے راستے میں چاند ستاروں کی دھول تو نہیں ہوتی گرو غبار دھول دھبے بارش میں گھل کر کیچڑ بن کر ان کا راستہ بند کرنے لگتے ہیں‘پھر اگر کسی گڑھے میں پانی رک جائے تو وہاں سے کوئی گاڑی گزرے اور اس کے ٹائروں تلے آکر پانی اچھلتا ہوا راہگیروں کے جامہ دیدہ زیب کو نازیبا اور تن زیب کپڑوں کو پامال کر دیتا ہے۔ہمارے ہاں کا کوئی نظام بھی کارگر اور درست حالت میں استوار نہیں ہے ہم جہاں جائیں ہمیں اس شہرِ بے مثال کی یاد ستاتی ہے یہ شہر ہمیں پھر بھی عزیز ہے مگر ہمارے اس شہر کے لوگوں کا کوئی پریشر گروپ ہی نہیں ہے جوسرکاری عملے پر دباؤ ڈال کراس شہر کے گلی کوچوں کی تعمیر و مرمت کا ڈول ڈال سکے جو ہے بس ہے جو ہوگا دیکھا جائے گا۔