اُنیس سو اَسی اُور نوے کی دہائیاں میں ’ٹیلی ویژن ڈراموں‘ کا راج تھا۔ یہ ڈرامے اِس قدر مقبول ہوا کرتے تھے کہ اِنہیں دیکھنے کے لئے معمولات زندگی رک جاتے۔ بازار جلد بند ہو جایا کرتے اور ہر قسط کے بعد دوسری قسط کا انتظار کرنے والے ڈراموں اور اِن کے اداکاروں کے بارے میں جاننے کے لئے بے چین رہتے۔ آج کے سوشل میڈیا کے برعکس اُس وقت کسی بھی فن کار کی نجی زندگی میں جھانکنے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ٹیلی ویژن انتہائی سنجیدگی سے دیکھا جاتا اور یہ اِس قدر باوقار ہوا کرتا تھا کہ کسی خاندان کے سبھی افراد مل بیٹھ کر (بااہتمام) ٹیلی ویژن دیکھا کرتے تھے۔ تب زیادہ چینلز بھی نہیں ہوتے تھے اور یوٹیوب و دیگر وہ ویڈیو بلاگنگ ویب سائٹس بھی نہیں ہوتی تھیں اور یہ رواج بھی نہیں تھا کہ ایک بار نشر ہونے والا پروگرام یا ڈرامہ بار بار دکھایا جائے گا۔ اِس لئے کسی من پسند ٹیلی ویژن پروگراموں کو دیکھنے کے لئے فرصت تلاش کرنا ہی پڑتی تھی تاہم ماضی و حال کے چند مشترکات بھی ہیں جیسا کہ اداکاروں کی بول چال‘ الفاظ کا انتخاب اور بالخصوص اُن کے ملبوسات کی تراش خراش (فیشن) تب بھی جلد مقبول ہو جایا کرتے تھے لیکن وہ سب کچھ پاکستانی تھا جسے مشرقی روایات اور خاندانی رکھ رکھاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریر و تشکیل کیا جاتا تھا جو قطعی آسان نہیں تھا اور ایسی ہی ایک مشکل کو منفرد انداز و بیان کے ذریعے ’معیار کی شکل‘ دینے والے ’امجد اسلام امجد (پیدائش 4 اگست 1944ء۔ وفات 10 فروری 2023ء)‘ خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ آبائی طور پر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے امجد اسلام امجد کو دس فروری کے روز دن ڈھلنے تک میانی صاحب قبرستان (لاہور) میں سپردخاک کر دیا گیا‘ اُن کے ساتھ شاعری اور ڈرامہ نگاری کی صورت تخلیقات کے عہد بھی تمام (اختتام پذیر) ہو گیا ہے۔شاعر‘ ڈرامہ نگار‘ ماہر تعلیم‘ معلم‘ کالم نگار اور ادبی نقاد امجد اسلام امجد نرم مزاج شخص‘ ترقی پسند مصنف اور پاکستان میں جدید اردو کی تحریر کرنے والی معروف ادبی شخصیات میں سے ایک تھے۔ امجد نے 1968ء سے 1975ء تک لاہور کے ’ایم اے او‘ کالج میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا اور ادب و پرفارمنگ آرٹس کو فروغ دینے والی متعدد تنظیموں سے بھی وابستہ رہے لیکن ان کا حقیقی ٹیلنٹ اُس وقت سامنے آیا‘ جب انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے ڈرامے لکھنا شروع کئے اور پھر صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا نے سرکاری چینل سے نشر ہونے والے اُن ڈراموں کو دیکھا اور آج بھی کلاسک کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ امجد اسلام امجد عوام کے نبض آشنا تھے وہ کوئی بھی ایسا ڈرامہ یا کردار تخلیق نہیں کرتے تھے جو معاشرے کا ترجمان نہ ہو۔ اُن کے ہاں خیالات اور تصورات انتہائی واضح تھے اور اُس کی وجہ اُن کی خداداد صلاحیتیں جیسا کہ قوی ذہانت و مشاہدہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ جب وہ ڈرامہ لکھنے بیٹھتے تو نہ صرف ڈرامے کے تکنیکی پہلوؤں کا خیال رکھتے بلکہ کہانی کے بیان میں دیکھنے والوں (ناظرین) کی سوچ اور سمجھ بوجھ بھی مدنظر رکھتے اور یوں لگتا کہ ڈرامہ دیکھا یا پڑھا نہیں جا رہا بلکہ کہانی کی ڈرامائی تشکیل اِسے دیکھنے یا پڑھنے والوں سے باتیں کر رہی ہے اور یہ کمال بہت ہی کم کہانی نویسوں کے حصے میں آیا ہے۔امجد اسلام امجد کا بطور ڈرامہ نگار سب سے کامیاب اور ناقابل فراموش (ہمیشہ یاد رکھا جانے والا) شاہکار ”وارث“ نامی ڈرامہ تھا۔ 1979ء میں نشر ہونے والے ’وارث‘ میں پنجاب کی جاگیردارانہ زندگی (معیشت و معاشرت) اور اُس
نظام کے بدلتے ہوئے حقائق‘ روایت اور جدیدیت کے درمیان تضادات کو اُجاگر کیا گیا جو اپنی جگہ ایک اچھوتا تصور اور غیر معمولی شاندار کوشش تھی۔ مذکورہ ڈرامے (وراث) نے امجد اسلام امجد کی حیثیت کو ڈرامہ نگار کے طور پر پیش کیا اور پھر یہ چھاپ اُن کی شاعری و دیگر ادبی خدمات پر حاوی ہو گئی۔ تب ایسا بہت ہی کم ہوتا تھا کہ کسی ڈرامے کو ایک سے زیادہ مرتبہ نشر کیا جائے لیکن ’وارث‘ کو دوبارہ نشر کیا گیا اور نشرمکرر کے دوران بھی اُس کی مقبولیت برقرار رہی۔ ’وارث‘ اِس قدر مشہور ہوا کہ اِسے چینی زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا اور یہاں تک کہ اداکاری کے سکولوں میں اِسے پڑھایا جاتا رہا۔ ’وارث‘ کے علاوہ امجد اسلام امجد کے دیگر قابل ذکر ٹی وی ڈراموں میں دہلیز‘‘ سمندر‘ وقت‘ دن‘ رات‘ انکار‘ چاچا عبدالباقی‘ دامن کی آگ‘ لہو میں پھول شامل تھے جبکہ اُنہوں نے
پاکستان ٹیلی ویژن کے علاوہ نجی ٹیلی ویژن چینلوں کے لئے بھی مختصر اور طویل ڈرامے تحریر کئے اور مختصر و طویل دورانئے کی فلمیں (دوسری طرف‘ بینتھ دی سی اور آئینہ) بھی لکھیں۔ اُن کے صوتی البم بھی ریلیز ہوئے جن میں ’محبت ایسا دریا ہے‘ سب سے زیادہ مقبول ہوا جبکہ دیگر صوتی تخلیقات میں ہم اُس کے ہیں‘ رات سمندر میں‘ میرے بھی ہیں کچھ خواب اور ڈیڑھ سو سے زائد نغمے شامل ہیں جو ٹیلی ویژن ریڈیو اور فلم کے لئے لکھے گئے اور معروف گلوکاروں جیسا کہ اُستاد نصرت علی خان‘ اُستاد حامد علی خان‘ اُستاد غلام علی‘ اقبال بانو‘ عابدہ پروین‘ نور جہاں اور بھارتی گلوکار جگجیت سنگھ نے گائے اور اُن کے تحریر کردہ ڈراموں کی طرح یکساں مقبول ہوئے۔امجد اسلام امجد کو 1987ء میں ”پرائڈ آف پرفارمنس“ اور 1998ء میں ’ستارہئ امتیاز‘ جیسے قومی اعزازت سے نوازا گیا۔ ادب‘ شاعری اور ٹیلی ویژن کے ذریعے تفریح (انٹرٹینمنٹ) میں اُن کی خدمات خاص طور پر ایسے دور میں اہم رہیں جب تخلیقی تحریر اور کہانی سننے زیادہ مقبول نہیں تھا بلکہ انٹرٹینمنٹ (تفریح طبع) کے لئے دیگر وسائل پر انحصار کیا جانے لگا تھا۔ یعنی تفریح کے چکا چوند (گلیمر) و سطحی رجحانات زیادہ مقبول تھے۔ مرحوم امجد اسلام امجد نے کئی انٹرویوز میں اِس بات کا ذکر کیا کہ پاکستان میں ”کمرشل ٹی وی“ کو فروغ دینے کی بجائے اُنہوں نے کس طرح معیار و مقصدیت کو ترجیح دی۔ وہ ادب میں سنسنی خیزی کے قائل نہیں تھے اور یہی وجہ تھی کہ اُن کے ہاں شدید نوعیت کے واقعات کا بیان بھی اِس شائستگی سے ملتا ہے کہ وہ کردار کا حصہ دکھائی دے اور غیرضروری یا اچانک نہ ہو۔ ایک ایسے شخص کی ثقافتی اور ادبی تخلیق‘ جسے بطور ڈرامہ نگار اور عمدہ شاعر کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘ اتنی طاقتور تھی کہ یہ ادب میں ہمیشہ زندہ اور قائم رہے گی اور اگرچہ اُن کی وفات نے ایک خلا چھوڑا ہے جسے کبھی پُر نہیں کیا جا سکتا اور اُن کی کمی ’علمی ادبی حلقوں میں‘ ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ 1974ء میں امجد اسلام امجد کی شاعری کے مجموعے ’برزخ‘ کے بارے میں امجد اسلام امجد نے کہا تھا کہ ”امجد کی شاعری جدید حساسیت اور موسیقیت (دھن) کی وجہ سے قارئین کو محظوظ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ امجد کی جدیدیت صرف ان کی جوانی کی وجہ سے نہیں بلکہ پس پردہ محرک اُن کی فطری شفقت (سادگی) ہے۔“ مذکورہ کتاب کے پیش لفظ میں امجد اسلام امجد نے لکھا کہ وہ (اپنی علمی ادبی زندگی میں) ”روایت پسندوں کے ساتھ جعلی انقلابیوں اور نام نہاد انقلابی تحریکیوں“ سے بھی محتاط (یعنی خود کو الگ رکھے) رہے اور شاید یہی امجد اسلام امجد کی کامیابی (مقبولیت) کی وجہ تھی۔ ”یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے: یہ بھی تو اپنی جگہ ایک پریشانی ہے …… زندگی کا ہی نہیں ٹھور ٹھکانہ معلوم: موت تو طے ہے کہ کس وقت کہاں آنی ہے (امجد اسلام امجد)۔“