ملبے کا ڈھیر

ان نادانوں کو جو اپنے تئیں ارسطو بنے پھرتے ہیں معلوم نہیں کہ آج تک سائنس کے اتنا زیادہ ترقی کر جانے کے باوجود کوئی ایسی ڈیوائس ایجاد نہیں ہوئی جو کسی سرزمین کے بارے میں پہلے سے بتلا دے کہ یہاں فلاں تاریخ کو فلاں وقت بھونچال آئے گا۔اپنی طرف سے تاریخیں دے دیتے ہیں کہ فلاں ڈیٹ سے فلاں ڈیٹ کے درمیان زلزلہ کی امید ہے۔اس سے زیادہ احمقانہ تو کوئی بات نہ ہوگی۔اس بیوقوفی کا تجربہ تو ہمیں سالوں پہلے ہو چکا ہے کہ پشاور میں افواہ زیرِ گردش تھی کہ زلزلہ افغانستان سے روانہ ہو چکا ہے جو کسی بھی وقت اس شہر کو ٹچ کر سکتا ہے۔ان نادانوں کو معلوم نہیں کہ یہ روانہ ہونے کی چیز نہیں۔ یہ ایک ہی وقت میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں میلوں پر پھیلے ہوئے خطے کو ایک ہی وقت میں لرزہ بر اندام کر سکتا ہے۔ماضی کی اُس افواہ کی وجہ سے لگ بھگ پورا شہر اس رات نفسیاتی خوف میں اچانک اس طرح مبتلا ہوا کہ شہریوں نے وہ رات گھر سے باہر اپنی موٹر کاروں کو کمرہ بنا کر گزاری۔مگر خدا کا لاکھ شکر کہ زلزلہ نام کی کسی چیز سے ہمارا سامنا نہ ہوا۔پھر اس آفت کا تعلق محکمہ موسمیات سے کہاں ہے۔جو ہر آدمی اس کو موسمیات سے جوڑ نے بیٹھ جاتا ہے۔اس کا تو ارضیات کے محکمے سے اگر کوئی جیالوجی کا ڈیپارٹمنٹ موجود ہو تو واسطہ ہونا چاہئے۔یعنی ہر شعبے کے اپنے ماہرین ہوتے ہیں اور اس حوالے سے ان کی رائے ہی اہم ہوتی ہے‘پرندوں کو ضرور الہام ہو جاتا ہے کہ زلزلہ آنے والا ہے ۔یہ صلاحیت انسانوں سے ہٹ کر بعض ذی نفس میں ضرور موجود ہے۔جیسے پانی کے جہاز کے گہرے پانیوں جا کر ڈوب جانے کے بارے میں جہاز کے چوہوں کو معلوم ہو جاتا ہے اور وہ ساحل پر کھڑے اس جہاز کے روانہ ہونے  سے پہلے ہی اس سے چھلانگیں لگا کر بھاگ جاتے ہیں۔زلزلہ تو ہر جگہ آتا ہے اور آ سکتا ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ کراچی میں زلزلے نہیں آتے۔خدا بچائے مگر وہاں بھی آئے ہیں  اس طرح دیکھا جائے تو دنیا کا کوئی خطہ زلزلوں سے حتمی طور پر محفوظ نہیں یہ الگ بات ہے کہ دنیا کے کچھ حصوں میں کم زلزلے آتے ہیں جیسے انگلینڈ ہو گیا اور کچھ حصوں میں زلزلے زیادہ آتے ہیں جیسے جاپان اور ترکیہ وغیرہ‘اس کے لئے پہلے سے پیش گوئی کرنا معقول آدمی کا کام نہیں ہے۔ زلزلہ آ سکتا ہے کا مطلب یہ نہیں کہ زلزلہ آئے گا۔ قدرت کے کاموں میں تو محکمہ موسمیات کا بھی دخل نہیں۔ وہ بارش کے بارے میں پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ بارش ہوگی اور ہو گی اور ہو کر رہے گی۔ وہ کہتے ہیں بارش کا امکان ہے۔ مگر کبھی بارش نہیں بھی ہوتی۔ ان کاتو صرف اندازہ ہوتا ہے۔آج کل بھی موسمیات کا جو ایس ایم ایس کسانوں کو موصول ہوتا ہے وہ سو فی صد درست نہیں ہوتا۔موسمیات والے گول مول باتیں کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ وقفہ وقفہ سے بارش کا امکان ہے اب بارش تیز ہوگی یا آہستہ ہوگی ان کو نہیں معلوم ہوتا۔شہریوں کو مطمئن ہونا چاہئے۔کیونکہ اول تو زلزلے کی پیش گوئی ہو ہی نہیں سکتی اور اگر زلزلہ اتفاق سے آئے تو اس کو ہم باوجود پاور رکھنے کے روک نہیں سکتے۔جوہوگا دیکھا جائے گا جو سب کا حال وہ ہمارا حال۔خدا تعالیٰ اس ناگہانی آفت سے ہر ایک کو محفوظ رکھے۔اب اس زمین پر ہزاروں زلزلے آ چکے ہیں۔خود ہمارے وطن میں مشہورزلزلے میں  ہزار ہا لوگ لقمہ اجل بنے۔ہم نے زلزلے کا کیا بگاڑلیا۔بس دعا پناہ سے کام لینا چاہئے اور اللہ کی امان کا طلبگار ہونا چاہئے۔ زلزلے کو کیا پوچھیں موت تو بیٹھے بٹھائے کس بھی وقت آسکتی ہے۔بلکہ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہماری پوری زمین کا گلوب کسی بھی سیکنڈ میں حادثے کا شکا رہو سکتا ہے۔مگر کیوں نہیں ہوتا حالانکہ خلا میں سیارے جن میں ہماری زمین بھی ہے لاکھوں میل کی تیزی سے ایک دوسرے کے قریب سے گزرتے ہیں۔مگر آپس میں ٹکراتے نہیں۔پھر ان کے نیچے کوئی سہار ابھی موجود نہیں۔اس مطلب یہ ہوا کہ تباہ ہونے پر نظر نہ رکھیں بلکہ پوری کائنات کو تباہ ہونے سے کس نے او رکس طرح بچا رکھا ہے اس کو یاد کریں۔وہ جس نے ہوا میں سورج اور چاند کو اُچھال رکھا ہے اسی نے ہماری زمین کو بھی سنبھال رکھا ہے۔