اک چراغ اور بجھا

ضیا محی الدین کا شمار ان براڈکاسٹروں کی فہرست  میں کیا جا سکتا ہے کہ جن میں زیڈ  اے بخاری،آغا طالش،رضا علی عابدی اور اشفاق احمد شامل ہیں۔ان کا انداز بیان اور تلفظ غضب کا تھا اگلے روز91 برس کی لمبی عمر پانے کے بعد وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور ان کی رحلت کے ساتھ ریڈیو براڈکاسٹنگ کا ایک درخشاں ستارہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ان کو انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر دسترس حاصل تھی اور انہوں نے کئی انگریزی ڈراموں میں بھی  بطور فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا پچھلے چند دنوں میں اوپر نیچے ادب کی دنیا کے دو تین ستارے غروب ہو گئے، پہلے عاشق چوھدری پھر امجد اسلام امجد اور اب ضیا محی الدین ان ابتدائی کلمات کے بعد اگر درج زیل خبروں پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔یہ امر تشویشناک ہے کہ پشاور کی فضا مقررہ پیمانے سے 4 گنازیادہ آلودہ ہے اور یہ کہ مضر صحت اور زہریلے مادوں کا تناسب انڈسٹریل شہروں سے زیادہ ہے جن میں کینسر پھیلانے والے مادے 60 فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ بے ہنگم آبادی کے باعث یومیہ کچرے کی پیداوار 2750 ٹن تک پہنچ چکی ہے اور 10ہزار ٹن کچراگلی کوچوں میں موجود ہے۔ اس صورت حال کے لئے ایک سے زیادہ سرکاری محکمے ذمہ دار ہیں کیا  اس صورت حال کو دیکھ کر صفائی کے ذمہ دار اداروں کے متعلقہ افراد کو بری الزمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ڈیزل گاڑیوں کے دھوئیں  اور کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھویں کا علاج اور ان میں ملوث افراد کو نکیل ڈالنا جن محکموں کے فرائض منصبی میں آ تاہے وہ کیوں خواب غفلت میں مبتلا ہیں کیا یہ حقیقت نہیں کہ پشاور کی گلیوں بازاروں نالیوں اور بازاروں میں 10 ہزار ٹن کچراموجود ہے جس کی وجہ سے معمولی بارش سے بھی طغیانی آ جاتی ہے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر کیوں نظر نہیں رکھی جا رہی۔اینٹوں کے بھٹوں اور کار خانوں میں ٹائر جلانے پر پابندی کیوں نہیں لگائی جا رہی اور اس میں مرتکب افراد کو قرار واقعی سزاکیوں نہیں دی جا رہی جب تک متعلقہ وزرا ء حرکت میں آ کر اپنے محکموں کے متعلقہ سرکاری افسروں سے  اس ضمن میں سختی سے باز پرس نہیں کریں گے پشاور کی فضائی آ لودگی خطرناک حد کو چھو جائے گی۔ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے بڑوں کے مقابلے میں بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور چونکہ ان کا مدافعتی نظام زیادہ مضبوط نہیں ہوتا اس لئے وہ اس کے باعث ان گنت بیماریوں کوشکار ہوجاتے ہیں۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچوں میں الرجی کی بیماری حیرت انگیز طور پر تیزی سے پھیلنے لگی ہے  اور اس الرجی کا شکار نو زائدہ بچے بھی ہورہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب فضائی آلودگی اور ماحول کے حوالے سے موثر اور فعال اقدامات کئے جائیں تاکہ اس مسئلے کا حل نکل آئے۔فضائی آلود گی میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اس سے یہ خدشہ پیدا ہونے لگا ہے کہ جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب کھلی ہوا میں سانس لینا گویا بیماریوں کو دعوت دینا ہوگا اس لئے بحیثیت مجموعی یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر اور صحت بخش ماحول دے سکیں۔