کل ہی کی تو بات ہے گیارہ سال پہلے میں نے ضیاء محی الدین سے خود جاکر ہاتھ ملایا تو دل کو قرار ملا۔اصل میں ان سے جو میرا رشتہ تھا وہ آواز کا تھا۔ میں ان کی آوازسنتاتھا۔ دیکھا تو تھا مگر ٹی وی اور تصویروں میں دیکھنا آمنے کا سامنا کا دیکھنا تو بہر حال نہیں۔اس زمانے میں موبائل کا جنون سروں پر سوار اس لئے نہ تھا کہ موبائل کی جو کارستانیاں اب ہیں وہ تو موجود نہ تھیں۔ یعنی آج سے بیس سال پہلے یہ جو اب ہیں وہ موبائل کہاں تھے۔ بس سننا سنانا تھا۔ اسی لئے میرے پاس اس زمانے کی جدید ترین چیز واک مین ہوا کرتاتھا۔ ایک اچھی بیرونی کمپنی والا۔ کانوں میں ٹونٹیاں لگا ؤ اور ٹیپ ریکارڈ کی پوری کیسٹ سنتے جاؤ بلکہ دوڑتے جاؤ۔پھر میرا سسرا ل بھی کراچی میں ہے۔ہمارا آنا جانا شہرِ قائد میں رہتا ہے۔بلکہ نصف صدی کا قصہ ہے یہ پل دو پل کی بات نہیں۔اس وقت بسیں نہ تھیں صرف ٹرین ہی کا سفر کرنا ہوتا تھا۔ آئے دن بستر بوریا اٹھائے خالہ کے گھر اردو کے ماحول میں خالو کے ساتھ ہندکو بولنے چلے جاتے تھے۔ پھر رشتے بھی ہوگئے اور ضیاء محی الدین کے فن کے اس شہر سے مزید وابستگیاں پیدا ہوگئیں۔ بلکہ بعد میں تو بچوں کے رشتے بھی یہاں وہاں ہوئے اور ہم تیز ہواؤں کی ریتلی زمین والے ساحل پر گھومنے پھرنے لگے۔ٹرین کا سفر تو ایک دن ایک رات اور پھر آدھا دن کا ہوتا۔ وہ بھی اگرٹرین وقت پر پہنچ جاتی۔ ورنہ تو ریل گاڑی چھ چھ گھنٹے تاخیر سے بھی یہاں وہا ں پہنچتی۔اب بھی یہی حال ہے۔ایسے میں ریل کی گاڑی کی چھک چھک کو تین دن سنتے رہنے سے اچھا نہیں کہ واک مین کی ٹونٹیاں کانوں سے جڑی ہوں اور بندہ اپنی پسند کامیوزک سن رہا ہوساتھ ساتھ سفر بھی کر رہاہو۔ میں نے اس سفر میں جو کیسٹ زیادہ سنی وہ ضیاء محی الدین کی آواز میں فیض احمد فیض کی شاعری تھی۔ جو میوزک میں نہ تھی مگر ان کے شائستہ گفتار جادوئی لہجے میں تھی۔ میں پشاور ہی سے دل میں ارادہ کر کے گیا تھا کہ اب کے تو ضیاء محی الدین سے ملنا ہے۔کیونکہ ان کو کیسٹوں میں بہت سن رکھا تھا او راب تک ان کی آواز کا جادو چل رہا ہے۔حالانکہ وہ آواز جو اب ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی ہے۔سنا تھا کہ وہ کراچی میں پاکستان کے اداکاروں کے تربیت کے سنٹر کے چیئر مین ہیں۔معاملہ یہ ہے کہ جب کسی آواز کے سنتے میں اس آواز کے بولنے والے کے ساتھ محبت ہو جائے تو ایک دن دل کرتا ہے کہ اس کا چہرہ بھی دیکھا جائے۔پھر بندہ ضد پہ اڑ جاتا ہے کہ جھلک دکھلا جا صرف ایک جھلک۔میں کراچی پہنچا تو دو ایک دن کے بعد سیدھا ناپا کے گیٹ پر پہنچ گیا تھا۔ ان دنوں ملک میں گیٹ پر اپنی پہچان کروانے کے مسائل جنم لے چکے تھے۔نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ کے سیکورٹی اہلکار نے مجھے اندر نہیں چھوڑا۔کیونکہ میں نے کہہ دیا تھا کہ میں پشاور سے آیا ہوں۔ میں ضد کرنے لگا۔ میں نے کہا صرف ایک نظر ضیاء محی الدین صاحب کو دور سے دیکھوں گا اور چلا جاؤں گا۔میرے اس مشکوک جملے نے مجھے اوربھی پر اسرار بنا ڈالا۔اندر اطلا ع ہوئی اور وہا ں سے ایک خاتون اہلکار گیٹ پر آن پہنچی۔انھوں نے کہا وہ تو آپ سے نہیں مل سکتے۔آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں اور کس مقصد کے تحت ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا میں صرف ان کو دیکھ کر واپس چلا جاؤں گا۔ ان دنوں حالات بہت خراب تھے۔انھوں نے مجھ سے میرا تعارف پوچھا۔بہرحال تھوڑی دیر کے بعد مجھے اندر لے جایا گیا۔ ان کا کمرہ کہیں پیچھے کر کے تھا۔ پہلے دو بڑے کمرے آتے ان میں سے گزرا تو کمپیوٹر پڑے ہوئے تھے۔ وہاں اس وقت کے مشہور اداکار کمپیوٹر پردو دو تین تین کرکے جھکے ہوئے تھے۔جانے کیا ڈھونڈ رہے تھے۔مگر مجھے ان سے سروکار نہ تھا جنون کا تقاضا تھا جو بعد میں سمجھ میں آیا کہ مجھے سب کے ہوتے سوتے سب اداکار کیوں نظر نہ آئے۔جب خاتون نے ان کے کمرے کا دروازہ کھولا او رمجھے اندر جانے کو کہا تو میں وہاں کمرے کی دہلیزمیں کھڑا رہ گیا۔ہاتھ اٹھا کر سلام کیا اور کہا بس جی میں نے گیٹ پر اپنے کئے وعدے کے مطابق آپ کو دیکھ لیا ہے میں جا رہا ہوں۔ وہ کھڑے ہوگئے او رکرسی کی جانب اشارہ کر کے اصرار کیا نہیں نہیں آئیے تشریف لائیے۔سو مجھے آگے بڑھنا پڑا۔سلیٹی رنگ کی آدھی آستین کی سفاری پہنے ہوئے تھے۔ بازؤں پر گھنے بال ایک رعب سا طاری کردینے والا چہرہ۔ بڑے اچھے طریقے سے ملے۔میں نے کہا میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لیتا۔کہنے لگے میری پشاور سے خوبصورت یادیں وابستہ ہیں میں پشاور آیا تھا۔پھراس کے بعد مجھے یاد نہیں کہ وہ کس کے پاس آئے تھے اور کس مقصد کے تحت آئے۔بہر حال پشاور کی یادیں انہوں نے شیئر کیں۔شخصیات کے نام بھی لئے مگر اب بھولے سے بھی یاد نہیں۔میں اٹھا صرف دو منٹ کی ملاقات کی۔انھوں نے بیٹھنے کو کہا مگر چونکہ میرا مقصد پورا ہو چکا تھا اس لئے میں نے دوسرے کا وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور وہاں سے نکل آیا۔