نایاب ہستیاں: ضیا محی الدین

ریڈیو کے عالمی دن کے موقع پر عالمی شہرت یافتہ براڈکاسٹر ضیاء محی الدین کے انتقال سے علمی ادبی حلقے سوگوار ہیں۔ اُن کی عمر 91 سال تھی۔ ایک ہفتے میں علم و ادب سے وابستہ دو نایاب ہستیاں امجد اسلام امجد اور ضیا محی الدین کے بچھڑنے سے پیدا ہونے والا خلا شاید کبھی پورا نہ ہو سکے۔ ضیا محی الدین (پیدائش 20 جون 1931ء۔ وفات 13 فروری 2023ء) لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں پیدا ہوئے تاہم اُن کے آباؤاجداد کا تعلق ہریانہ (روہتک گاؤں‘ مشرقی پنجاب‘ بھارت) سے تھا۔ آپ کے والد خادم محی الدین ریاضی دان‘ موسیقار‘ ڈراما نگار اور نغمہ نگار تھے۔ ضیا محی الدین نے اپنی ابتدائی زندگی قصور اور لاہور میں گزاری۔ انہوں نے 1953ء سے 1956ء تک لندن میں ”رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ“ میں تربیت حاصل کی۔ انگریزی اور اُردو سمیت کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ لانگ ڈے جرنی ان نائٹ اور جولیس سیزر میں سٹیج کردار ادا کرنے کے بعد‘ انہوں نے بیس اپریل سے تین دسمبر اُنیس سو ساٹھ تک کامیڈی تھیٹر ”اے پیسیج ٹو انڈیا“ میں کام کیا اور 302 پرفارمنسز کیں۔ ”لارنس آف عربیہ“ کے ذریعے اُنیس سو باسٹھ میں فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد متعدد ٹیلی ویژن ڈراموں اور فلموں میں کام کیا اور اداکار کی حیثیت سے برطانیہ میں قریب سینتالیس سال مقیم رہے۔ ضیا محی الدین 1960ء کی دہائی کے آخر میں پاکستان واپس آئے اور 1969ء اور 1973ء کے درمیان انتہائی مقبول ٹیلی ویڑن ٹاک شو ”دی ضیا محی الدین شو“ کی میزبانی کی۔ (اِس شو کی چند ریکارڈنگز ’یوٹیوب‘ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔)  1973ء میں ”پی آئی اے آرٹس اکیڈمی“ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور 1977ء تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے ساتھ اختلافات کے بعد‘ محی الدین 1970ء کی دہائی کے آخر میں برطانیہ واپس چلے گئے تھے۔ فروری 2005ء میں واپس آئے اور رحلت تک کراچی میں مقیم رہے جہاں اُنہیں سپردخاک کر دیا گیا۔ 
کمپرنگ‘ براڈکاسٹنگ‘ شاعری‘ نثر‘ اداکاری اور تھیٹر ڈائریکشن میں ضیا محی الدین کا ثانی نہیں تھا۔ ایک زمانے میں کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کے بانی اور بعدازاں تاحیات صدر (ایمریٹس) رہے اور سینکڑوں طالب علموں کی رہنمائی کر چکے ہیں۔ اُن کی فلم ”ایمیکیولیٹ کانسیپشن“ جو سال 1992ء میں ریلیز ہوئی کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ 1965ء میں جب پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر باضابطہ پابندی عائد کی گئی اُس وقت پاکستان کی فلمی صنعت کو معیاری فیچر فلموں کی ضرورت تھی جس کے لئے تکنیکی ماہر کے طور پر ضیا محی الدین نے فن ہدایت کاری کے جوہر دکھائے تاہم ضیا محی الدین کی بنائی ہوئی ’کلاسیکل (فن کے اصولوں پر پوری اُترنے والی) فلمیں‘ زیادہ مقبول نہیں ہوئیں کیونکہ وہ عوام کے مزاج اور پسند کے مطابق نہیں بلکہ اندر چھپے فنکار کی تسکین و اطمینان کے لئے کام کرتے تھے۔ یہی پاکستان کا المیہ ہے کہ بہت ہی کم صلاحیت کاروں کو ضیا محی الدین جیسی شہرت نصیب ہوئی اور اُنہیں بھی شہرت ملی تو آخری عمر میں وہ اُس خاص طبقے کی حد تک مقبول رہے جو کلاسیکل موسیقی (راگ رنگ) اور شاعری کو اُس کے بنیادی‘ قدیمی و اصل (کلاسیکل) اسلوب میں پسند کرتا ہے۔ ضیا محی الدین کی خدمات سے پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن چینلز نے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا۔ 
ایک موقع پر جب ضیا محی الدین نے اپنے خطاب کے موضوع ”شیکسپیئر منفرد طور پر شیکسپیئر کیوں ہے؟ کے حوالے سے پہلے جملے ہی سے توجہات کو گرفت کر لیا کہ ہر شخص کے اندر ایک تخلیق کار اور ایک نقاد چھپا ہوتا ہے اور اِن دونوں کے درمیان ہمیشہ ایک دوسرے پر حاوی ہونے کے لئے جنگ جاری رہتی ہے۔“ شیکسپئر کی تحریروں کی کامیابی اور منفرد پن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ”اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چار سو سال پہلے لکھے گئے اُن کے ڈرامے آج بھی اِس لئے مقبول ہیں کیونکہ اُنہوں نے ہمیشہ ”وضاحت (clarity)“ کے ساتھ لکھا اور یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ ’ڈرامہ نگار ہمیشہ اِنسانی فطرت سے ہمدردی رکھتا ہے‘ اُس کے لئے بادشاہوں کے قصوں میں عبرت ہوتی ہے اور یہی کہانیوں کا وہ سبق آموز پہلو ہوتا ہے جو شروع دن سے آج تک اپنے آپ سے مطمئن لکھاریوں کے سوچ اور فن کا مشترک پہلو ہے۔“ ایک انٹرویو میں اُن سے پوچھا گیا کہ وہ فن اداکاری کے موجودہ معیار کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ اُن کا جواب تھا ”پہلے زمانے میں بھرپور طریقے سے اداکاری کی جاتی تھی لیکن اکیسویں صدی کے بعد ایسا نہیں ہو رہا۔ اداکار کا ہنر (ثمر) ہمیشہ وہی ہوتا ہے‘ جس کے لئے اُس نے ریاضت (محنت) کی ہوتی ہے۔ آواز کا پھیلاؤ‘ آواز کا ٹھہراؤ‘ جب تک آپ کو اپنی پسلیوں اور پردہ شکم کا آپس میں مطابقت پیدا کرنا نہ آتا ہو اُس وقت تک تھیٹر ہو یا ڈرامہ اداکاری مثالی نہیں ہوگی۔ اداکاری کی مشق زبان سیکھنے کی طرح ایک دو ہفتے میں مکمل نہیں ہوتی اس کے لئے ایک دو سال لگتے ہیں اور مہارت کے لئے تکنیک اور آلات دونوں کو سیکھنا پڑتا ہے اور کلاسیکل اداکاری کی پہلی ضرورت زبان کا آنا ہے۔“
موجودہ نئی نسل ’ضیا محی الدین‘ کی شخصیت یا خدمات سے زیادہ واقف نہیں جبکہ اُن کی وفات سے ”صدا کاری“ کا ایک عہد تمام (باب مکمل) ہوا ہے۔ وہ کمال درجے کے زباں شناس بھی تھے۔ ایک نسل ایسی بھی گزری ہے کہ جنہیں ضیا محی الدین کی آواز کی وجہ سے اردو زبان و شاعری سے پیار ہوا۔  آپ صرف شخصیت ہی نہیں بلکہ اُردو زبان کا ایک ادارہ‘ لیجنڈ اور رول ماڈل تھے اور جب بھی اردو زبان و بیان کی بات آتی ہے تو کوئی آپ کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے انتقال سے ایک عہد تمام ہوا ہے جو بالعموم اردو ادب پر ان کی بے مثال گرفت کا عہد تھا اور اردو سے اُن کا ضرب المثل لگاؤ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ضیاء محی الدین نے اردو بولنے کا جو انداز متعارف کرایا بلکہ جس انداز اور اسلوب کی حفاظت کی وہ یقینا ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے کیونکہ  وہ ان شخصیات میں سے تھے جنہیں اردو سے نہ صرف پیارتھا بلکہ اس پیار کا اظہار انہوں نے اپنی عملی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا۔