ایک خوشگواری اور ایک ناہمواری کا سامنا ہے آج کل بحوالہ موسم یہی کارستانی ہے جو مجھے سنانی ہے وہ یہی کہانی ہے بات توپرانی ہے مگر اب کے پُر معانی ہے اور آپ کی توجہ دلانی ہے۔سرکارِ کے پی نے سرد علاقوں کی سکول کی چھٹیاں اٹھائیس فروری تک بڑھا دی ہیں۔یہ بھلا پہلے کب ہوا تھا۔جو اب ہوا تو چلو خوب ہوا کہ بچے ہوا کی یہ جولانیا ں سہہ نہیں سکتے۔جو زیادہ عمر کے ہیں اور جو جوان ہیں توانا درخت کی مثال ہیں مگر معصوم بچے ننھی کونپلیں ہیں جو اس تیز چلنے والی بادِ قبل از بہاری کا چلن اپنے رخساروں پر برداشت نہیں کر پاتے۔ان کے لئے اس غیر عمومی اور بے ترتیب موسم میں سکول کی مزید چھٹیاں ایک خوش خبری کے طور پر سنی گئی ہیں پھر ضرورت بھی تھی۔ روز اس نشیلی رُت کا نیا سا انداز ہوتا ہے جو سمجھ سے باہر ہے۔ مگر وہی جو مسئلہ ہے اور ناقابلِ حل ہے اور خود ہمارے ہاتھوں کہ عالمی درجہ ئ حرارت میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ پھر موسموں کے بگڑ جانے اور اچانک درست ہوکر دوبارہ سے جلدہی نئی انگڑائی بھرنے کی کہانی کچھ نئی سی ہے۔اس شہرِ گل کی آلودگی میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ جس کو ٹی وی کے نیوز چینل دہرا رہے ہیں۔بات کچھ عجیب سی ضرور ہے۔ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہوئے ایک ہی درجہ کی حرارت میں کسی کو سردی تو کسی کوگرمی لگ رہی ہے۔جس کو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے وہ دوسرے سے پوچھتا ہے یار مجھے سردی لگ رہی ہے۔دوسرا کہتا ہے مجھے گرمی لگ رہی ہے۔اس موسم کے تیور کے کارن گرمی کی حدود میں موسم نے سردی کے کوڑوں بجانے سے کام لینا شروع کر دیا ہے۔بچوں تک کو سکول جانے سے روک دیا ہے تاکہ بہار کی ابتداہونے کے گمان تک مارچ کے درمیان تک موسم اپنی قدرتی روانی تک پہنچ جائے۔مگر پھر بھی کہیں ایسا نہ ہوا تو کیا ہو۔پھر موسموں کا کیا اعتبار گاہے سردی گاہے گرمی۔یہ معاملہ کچھ دو ماہ سے جاری ہے۔موسم کی اس پراسرار حرکت کو باریک نگاہوں نے دوماہ سے نوٹ کر رکھا ہے۔پھر ا س پر عامتہ الناس کی توجہ بھی دلائی ہے۔اس کا ثبوت اب گذشتہ دنوں ہونے والا حکم نامہ ہے جس میں سکولوں کو کھلنے سے روک دیا گیا ہے۔اس آرڈر میں یہ بھی تحریر ہے کہ موسم کی بے
ترتیبی اور ناہمواری کے کارن چھٹیاں بڑھا دی گئی ہیں۔”کہیں تو جا کے رُکے گا سفینہئ غمِ دل“۔ابھی گرانی ئ شب میں کمی نہیں آئی“۔”کہیں تو آکے رکنے تھے قافلے“۔اس کا کوئی تو انت ہونا تھا۔کہیں تو اس موسم کی پرچھائیاں پڑنی تھیں۔یہ جو ہماری اپنی غیر ذمہ وارانہ حرکتیں ہیں وہی تو اس کا کارن ہیں۔ اب کراچی میں بھی سموگ کا سماں دیکھنے کو مل رہا ہے۔یہ نہیں کہ ہم ہی قصوروارہیں او رہمیں کو ہتھ کڑی لگی ہے پورے ارضِ وطن کے شہروں میں یہ بے ترتیب موسم اپنا کام دکھلا رہے ہیں۔پورا سال یہی کچھ رہا ہے۔دسمبر میں بھی گرمی نے رنگ دکھلایا اور بارہا ایسا ہوا پھر دوبارہ سردی ہو جاتی۔اب تک یہ سلسلہ دراز ہے۔عام آدمی نے ا س طرف دھیان نہیں دیا مگر جو جانتے ہیں ان کو معلوم ہے۔پھروہ کر بھی کیا کر سکتے ہیں۔ انسان اپنے ہاتھوں سے ایسی گرہیں لگا لیتا ہے کہ پھر دانتوں سے بھی کھل نہیں پاتیں‘ان حالات میں آلودگی کی طرف کس کا دھیان جاتا ہے۔مگر عوام اگر شعور کی آنکھ رکھنے والے ہوں تو موسم کی اس نزاکت کو محسوس کر کے اس کے لئے اپنی اپنی سطح پر انفرادی کوشش کرسکتے ہیں۔ہر آدمی اپنے حصے کی ایک شمع جلالے اور کام بن جائے۔ اندھیرے کو کوسنے سے بہتر ہے کہ آگے بڑھ کر ایک شمع روشن کر دی جائے۔