چیٹ جی پی ٹی: تشویشناک حقیقت

کمپیوٹر سے اِستفادہ کرنے میں اِنسانی ذہانت کا عمل دخل ہر دن کم ہو رہا ہے۔ اِس سلسلے میں حیرت انگیز اور انقلابی تصور ”چیٹ جی پی ٹی (ChatGPT)“ کے عنوان سے متعارف ہوا ہے۔ ’جنریٹو پری ٹرینڈ ٹرانسفارمر (GPT)‘ ایک ایسا نظام ہے جس کے تحت کمپیوٹر کسی صارف کی عادات اور اُس کے تخیل (خیالات) کو مدنظر رکھتے ہوئے نتائج دیتا ہے۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی یہ جدید ترین ٹیکنالوجی ہر شعبہئ زندگی بالخصوص درس و تدریس میں زیادہ استعمال ہو رہی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی تک رسائی ویب سائٹ (chat.openai.com) کے ذریعے ممکن ہے جو نومبر دوہزار بائیس میں متعارف ہوئی تاہم اِس نئے تصور کی تکمیل نئے عیسوی سال میں زیادہ تیزی سے ہو رہی ہے۔ جہاں تک کمپیوٹر کی دنیا کا تعلق ہے تو اِس میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر اچھے سے اچھا تصور یا کام کاج کا معاون طریقہ (سافٹ وئر) حتمی نہیں ہوتا اور اِس کی مختلف اشکال (ورژنز) اپ ڈیٹ کی صورت آتے رہتے ہیں۔’چیٹ جی پی ٹی‘ کے ذریعے ایک ہی سوال کے مختلف اور بہت سارے جوابات تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ اِس کے ذریعے شاعری اور عکاسی بھی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’چیٹ جی پی ٹی‘ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ’اوپن اے آئی‘ کی جانب سے فراہم کردہ اِس سہولت کی بنیاد دوہزارپندرہ میں رکھی گئی تھی جب امریکہ کی معروف کاروباری شخصیت ایلون مسک سمیت دیگر سرمایہ کاروں نے ’چیٹ جی پی ٹی (اوپن اے آئی)‘ میں دس ارب ڈالر جیسی غیرمعمولی سرمایہ کاری کی اور اِس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اُنہیں دنیا کا مستقبل کمپیوٹروں کی مصنوعی ذہانت میں دکھائی دے رہا ہے۔ ایک ایسی مصنوعی ذہانت جو کمپیوٹروں کو انسانوں کی طرح سوچنے اور بات چیت کرنے کے قابل بناتی ہے۔ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب مشینیں اور انسان ایک دوسرے سے جدا نہیں کئے جا سکیں گے اور کمپیوٹروں سے متعلق وہ سبھی تصورات جو کبھی فلموں میں دکھائی دیتے تھے اب
 یکے بعد دیگرے حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’چیٹ جی پی ٹی‘ عمومی بات چیت کے پلیٹ فارم (چیٹ بوٹ) سے کہیں زیادہ بڑے کام کرسکتا ہے۔ ”کمپیوٹنگ مشینری اینڈ انٹلی جنس“ کے عنوان سے ایک مقالے میں درج مکالمہ خاصا دلچسپ تھا کہ کمپیوٹر سے مخاطب ہوتے ہوئے ایک شخص (انسان) پوچھتا ہے کہ براہ مہربانی مجھے فورتھ برج کے موضوع پر ایک مضمون لکھ کر دیں اور مشین جواب دیتی ہے کہ وہ شاعری نہیں کر سکتی لیکن چیٹ جی پی ٹی ایسا کر سکتی ہے اور اِس کے ذریعے پوچھا گیا کوئی بھی سوال فوری طور پر معقول و مہذب جواب کی صورت واپس ملتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ کسی ایک سوال کے کئی ممکنہ جوابات بھی دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی ”ٹیکسٹ فوکسڈ“ جنریٹیو اے آئی سہولت (آلہ) ہے جو مواد کی تخلیق‘ کسٹمر سروس میں ورچوئل معاونت‘ ٹیکسٹ سمریائزیشن تراجم کر سکتا ہے اور اگر اِس کی ترقی کا عمل جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب دفتری خط و کتابت یا عمومی کام کاج کے لئے افرادی قوت کی ضرورت نہیں پڑے گی اور یہ کام کمپیوٹرز ازخود مستعدی سے سرانجام دیں گے۔ یہ متن سے متعلق کاموں میں ایک چاق و چوبند اور ہمیشہ محتاط معاون کے طور پر کام کرسکتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی اشتہاری مہمات اور کہانیوں کا مسودہ تیار کرسکتا ہے اور اس کے ذریعے کسی بھی سکول‘ کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ قابلیت امتحانات کی مشقیں بھی بنا کسی معلم کی جا سکتی ہیں۔ ’چیٹ جی پی ٹی‘ اور اِس
 جیسی مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی ایپلی کیشنز کا عروج ’تشویشناک حقیقت‘ ہے کیونکہ اِس کی اندھی تقلید ہونے لگی ہے۔ سماجی یا مالیاتی اَمور کے بارے میں کمپیوٹروں کی پیشگوئیاں سہولت تو ہو سکتی ہیں لیکن یہ اپنی ذات میں ناقص ہی رہیں گی کیونکہ جوابات کی درستگی کے بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔ چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے قابل اعتماد اور ناقابل اعتماد متن کے درمیان تمیز کرنے کا شعور‘ خواندگی کی وہ بلند سطح ہے جو کمپیوٹروں کو عمومی طور پر جاننے سے حاصل نہیں ہوتی۔ معروف تحقیقی جریدے ”نیچر“ کے حالیہ شمارے میں کہا گیا ہے کہ سائنسی و تحقیقی مقالہ جات لکھنے والے ’چیٹ جی پی ٹی‘ کا استعمال کریں تو اُن کی نقل (دھوکہ دہی) کو باآسانی پکڑا نہیں جا سکتا اور یہ بات اپنی جگہ خطرناک ہے کہ کمپیوٹروں کی ذہانت (مصنوعی ذہانت) سے ملنے والے جوابات یا نتائج کس قدر قابل عمل و قابل بھروسہ ہو سکتے ہیں۔ چیٹ جی پی ٹی کی جعلی بصیرت نے درستگی یا تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کی مشق زیادہ مشکل بنا دی ہے۔ اساتذہ اِس لئے پریشان ہیں کیونکہ اُن کا واسطہ اب طلبہ کی ذہانت و محنت سے نہیں بلکہ چیٹ جی پی ٹی سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب اِس بات کا اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے کہ اچھی انگریزی (ماہرانہ اسلوب و روانی کے ساتھ) کوئی مضمون کسی طالب علم نے لکھا ہے یا یہ ’چیٹ جی پی ٹی‘  کی ”کارستانی“ ہے۔ مشین لرننگ ماڈل سے متعلق سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی وضاحت یا تشریح مشکل ہوتی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کے معاملے میں بھی یہی مشکل درپیش ہے اور واضح نہیں ہے کہ یہ چیٹ بوٹ کن اخلاقی اقدار (فریم ورک) میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔چیٹ جی پی ٹی کے غلط استعمال اور اِس کی حدود کے بارے میں خدشات اپنی جگہ لیکن اِس کا استعمال پورے جوش و خروش سے جاری ہے۔ دلچسپ مطالعہ ہو گا کہ انسان اپنے ہی ہاتھوں بنائی ہوئی مصنوعی ذہانت کی مشینوں سے کس طرح اور کس قدر مثالی فائدہ اٹھاتے ہیں؟