روڈ ٹریفک کو محفوظ بنانے کی ضرورت 

جب بھی اخبارات میں ٹریفک حادثات میں اضافے کی  زیادہ خبریں چھپنے لگتی ہیں تو بعض شہروں میں چند دنوں کے واسطے ٹریفک پولیس خانہ پری کے لئے متحرک ہو جاتی ہے اور پھر جب معاملہ ٹھنڈا پڑنے لگتا ہے وہ حسب معمول ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنیوالوں کے ساتھ نرمی برتنے لگتی ہے۔  اب کی دفعہ بھی کچھ ایسا ہی راولپنڈی پولیس نے کیا ہے۔  اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا اور یہ صرف راولپنڈی  یا کسی ایک یا دو شہروں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے ٹریفک حادثات رکنے کا نام نہیں لے رہے اور ان سے ہر سال جو اموات ہو رہی ہیں ان کی تعداد عارضہ قلب اور کینسر سے مرنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ ٹریفک پولیس بے شک ایک ایسا میکینیزم مرتب کرے کہ جس کے تحت ڈرائیونگ لائسنسوں کی دوبارہ جانچ پڑتال ہو اور وہ ڈرائیونگ لائسنس کینسل کئے جائیں کہ جو بغیر کسی مناسب تربیت کے  حاصل کیے گئے ہوں پر اس سے بھی زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جو گاڑیاں ہماری سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں کیا وہ میکینکلی mechanically فٹ بھی  ہیں ان کے ٹائر یا دیگر پارٹس expire تو کہیں نہیں ہو چکے اور انکی فیزیکل چیکنگ کے لئے کیا ٹریفک پولیس کے پاس کوئی تسلی بخش مانٹیرننگ سسٹم موجود بھی ہے کہ نہیں۔ اوور سپیڈنگ کے مرتکب ڈرائیونگ کرنے والوں کے لئے قانون میں ترمیم کر کے قرار واقعی سزا تجویز کرنا ضروری ہے اور اس بات کا بھی اہتمام کیا جائے کہ اوور سپیڈنگ کرنے والوں کا موقعہ پر بلڈ سیمپل لے کر اس  بات کی تسلی کی جائے کہ کہیں وہ کوئی نشہ کر کے ڈرائیونگ تو نہیں کر رہے۔ہمارے اکثر ڈرائیور صرف ویل سٹریننگwheel steering ڈرائیورہوتے ہیں۔ وہ ٹریفک کے قوانین کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے لہٰذا ان کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کرتے وقت اس بات کا اطمینان کر لینا ضروری ہے کہ وہ ٹریفک کے قوانین سے پوری آگاہی رکھتے ہیں۔ اس میں آخر کیا قباحت ہے اگر ہم ان ٹریفک قوانین کو اپنے ہاں من و عن نافذ کر دیں کہ جو برطانیہ یا عرب امارات بشمول سعودی عرب نے اپنا رکھے ہیں اور جس کی وجہ سے وہاں ٹریفک حادثات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔  جب تک ملک میں ٹریفک کے قوانین کو سختی سے نافذ نہیں کیا جائے گا کہ جس طرح سعودیہ یا یورپ میں کیا جاتا ہے اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر نے والوں کو جیل کی ہوا نہیں کھلائی جائے گی ملک میں ٹریفک کے حادثات میں کمی نہیں آ سکتی۔ ٹریفک قوانین میں ایک اس قسم کی شق کا اضافہ ضروری ہے کہ اگر اٹھارہ برس سے کم عمر والا فرد کسی قسم کی بھی گاڑی چلاتاپایا گیا تو نہ صرف یہ کہ اس کی گاڑی بحق سرکار ضبط ہو گی اس کے والد یا گارڈین guardian کے خلاف بھی پرچہ دیا جائے گا۔یہاں ان گاڑیوں کاتذکرہ کرنا بھی اسی موضوع سے جڑا ہے کہ جو سڑکوں پر بے انتہا دھواں اُگلتی ہیں اور ان سے ماحولیاتی آلودگی میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں ڈیزل اور پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی بجائے الیکٹرک گاڑیوں کوسڑکوں پر لانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے اس ضمن میں یورپی پارلیمنٹ نے گزشتہ روز 2035 تک کاربن خارج کرنے والے پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی کاروں کی فروخت پر پابندی کی حتمی منظوری دے دی ہے۔ یہ اقدام صدی کے نصف تک ایسی کاروں کو یورپ کی سڑکوں سے ہمیشہ کے لئے دور کر دینے کی غرض سے کیا گیا ہے۔