فٹ پاتھ کے لوگ

شام ہونے لگی تو وہ اپنی کتابیں سمیٹنے لگا۔کیونکہ غروبِ آفتاب کے وقت یہاں فٹ پاتھ پر شہریوں کے آنے جانے کا سلسلہ زیادہ ہونے لگتاہے۔اب ایسے میں کسی کو کیا پڑی ہے کہ بھلے چنگے موڈ کو خراب کرنے کے لئے وہاں کھڑے ہو کر یا زیادہ دلچسپی ہو تو بیٹھ کر کتابیں ٹٹولنے لگے کیوں نہ جاتا بنے۔اپنے کام سے کام رکھے بھلا کتابوں کے ساتھ اس کا یا کسی اورکا کیا کام ہو سکتا ہے۔کیوں نہ وہاں اگر نئے برتنوں کا سٹال ہو اور چائے کے نئے کپ اور پرچ وغیرہ فروخت ہو رہے ہوں تو وہ خرید لے۔پھر اگر خرید نہ بھی سکے تو یونہی ان نئے برتنوں کو اپنے ذوق کی تسکین یا ہوس کو آرام دینے کے لئے الٹ پلٹ کر کے دیکھے مزا لے اور نکل چلے۔ اب بھلا دکاندار کو کیا معلوم کہ اس گاہک کی نیت کیا ہوگی۔وہ کتابوں کی یہ دکان بند کرنے لگا۔کیونکہ کتابیں یہاں پڑی رہیں تو کوئی اٹھا کر لے جائے گا۔ اچھا ہے کہ پاس کے دکاندار کے پاس اندر ایک طرف کر کے رکھے اس پر کپڑا ڈال دے اور پھر دوسرے دن آئے تو وہیں سے یہ گھٹڑیاں اٹھا کر دوبارہ فٹ پاتھ پر پھیلا دے۔میں سوچ رہا تھا کہ اس سے کہوں ارے یار اتنا بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کوئی نہیں لے جاتا۔اگر ساری رات بھی پڑیں رہیں یہاں اس اوپن ایئر میں تو
 بھی ان کو کسی چور نے ہاتھ تک نہیں لگانا۔عام عوام کو ان سے کیا لینا دینا۔ چور یہ کی چیزیں جو ان کے لئے کسی کام نہیں بھلا کیوں چرائیں گے۔جاؤ آرام سے گھر جا کر سو جاؤ کل دھیرے دھیرے چل کر یہاں دوبارہ آ جانا اور کتابوں کے اس ڈھیر کے ساتھ بیٹھ جانا۔ صرف یہ احساس دلانے کو کہ تم ہی اس خزانے کے مالک ہو کوئی نہیں چراتا۔کتابوں کے چرا کر لے جانے کے زمانے گئے اب کتابیں کوئی نہیں چراتا۔سوچا کہوں کہ ہاں اگر کیش ہے تو وہ جیبوں میں ٹھونس لینا اور حفاظت سے گھر لے جانا۔وہ نقدی جو سارا دن بیٹھ بیٹھ کر تھوڑی تھوڑی کر کے اس کے پاس جمع ہوئی تھی۔آتے ہیں گاہک مگر فراوانی سے نہیں۔ٹھہر ٹھہر کر اور آرام آرام سے۔ مگر یہاں نئی کتابوں کا ذخیرہ بھی پڑا ہو توکیا۔ کتابوں کے اس بیوپار کے ساتھ عام آدمی کا ذوق جو نہیں۔پھر یہاں جو آتے ہیں ان کی جیب میں پیسے ہوں بھی تو سمجھو دکاندار کا وقت ضائع کرنے اور اپنی ہوس کی خاطر کتابوں کی قیمتیں ہی پوچھ پوچھ کر چلے جاتے ہیں۔حالانکہ وہ نئی کتب خرید سکتے ہیں۔مگر نہیں ان کاموں پر اتنا پیسہ خرچ کرنے سے حاصل کیا ہوگا۔ہاں اگر کوئی موبائل وغیرہ یہاں مہنگے سے مہنگا ہو تو اس کے گاہک صرف قیمت ہی دریافت نہیں کریں گے سچ مچ اس کو خرید بھی لیں گے۔ایک نہیں تو دسواں گاہک خرید ہی لے گا۔یہاں ہر چیز کا گاہک ہے مگر چیز بھی تو کام کی ہو اور بکاؤ ہو تو یہ مال اگلا کسی نہ کسی طریقے سے قسطوں پر سہی مگر خرید لے گا۔کتابیں بھی وہ ہوں جو بیس دن کے بعد ہونے والے امتحان میں کام آنے والی ہوں۔ کیونکہ کورس کی کتابیں یہاں بہت بکتی ہیں۔وہ تو بندہ کسی نہ کسی طریقے سے خرید ہی لیتا ہے۔ باقی تو ناول افسانے ڈرامے اور شاعری کی کتابیں جنرل نالج انگریزی سیکھنے۔یہ کتابیں کسی کے کچھ کام نہیں آتیں۔اب ہر کوئی اگر کورس کی کتاب مانگتا ہے تو مالِ مفت دل بے رحم والی بات ہے۔ چاہتا ہے کہ اس کو من چاہی کتاب پی ڈی ایف
 پر موبائل کے ذریعے بھیج دی جائے۔شادی پر جانے کے لئے وہ ساز و سامان اور پہناوا وغیرہ مہنگا خریدے گا۔ پھر اس  پرمول تول بھی نہ کرے گا۔ لیکن کتاب کو خریدنے پر اسے بار بار سوچنا پڑے گا کہ خریدوں یا نہ خریدوں۔ کہیں خرید لی تو ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہوجائے۔اپنا گھریلو بجٹ خسارے میں چلا نہ جائے۔کسی کی شادی ہو تو ولیمہ پر اس کو نوٹوں والا پھولوں کا ہار پہنا نا صد ہزار بار اچھا ہے۔اس موقع پر دولھا کو اس کے بعض دوست کتابوں کا سیٹ بھی تحفہ میں دیتے ہیں۔مگر یہ کتابیں تو بعد میں اس کے گھر والے ہی دیکھیں گے۔ اس وقت تحفہ دینے والے کوپیٹھ پیچھے سو باتیں کریں گے۔کہیں گے کیا شادیوں پر کتابیں تحفے میں دی جاتی ہیں۔کتابوں کو پڑھنا ضرورت کے تحت الگ ہے اور ذوق و شوق کے ماتحت جدا ہے۔مزا تب ہے کہ بندہ کو کتابوں کے مطالعہ کا ذوق و شوق ہو۔پھرا ن خریدی گئی کتاب کے الفاظ دل میں پیوست ہو کر قلب کے لئے ٹانک بن جاتے ہیں۔بندے کا میرٹ اس وقت ہائی ہونا شروع ہو جاتا ہے۔مگر یہا ں میرٹ کہاں۔یہاں تو میرٹ ڈگریوں کے حصول اورتعلیمی اسناد پر ملنے والے زیادہ سے زیادہ نمبروں پر ہوتا ہے۔