سابقہ فاٹا کی سات ٹرائیبل ایجنسیوں اور چھ فرنٹئیرریجنز کو ایک عرصہ ہوا خیبرپختونخوا میں ضم کر کے انتظامی طور اسے اس صوبے کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اگر چہ یہ قدم بھی بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق اٹھایا گیا تاہم جس قدر تیزی سے یہاں پر ترقی کاسفر طے ہونا چاہئے تھا ا س کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ بات ذھن نشین رہے کہ سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام سے پیشتر علاقہ غیر کے امن عامہ کو اجتماعی قبائلی علاقائی ذمہ داری کے concept کے تحت کنٹرول کیا جاتا تھا بالفاظ دیگر ہر قبیلہ اپنی اپنی علاقائی اور جغرافیائی حدود کے اندر امن عامہ کے قیام کیلئے مشترکہ طور پر پولیٹیکل ایجنٹ کو جواب دہ ہواکرتا تھا اور اس میں امن عامہ کے قیام کیلئے ذمہ دار ہوا کرتا تھا۔ یہ نظام ایک عرصہ دراز تک بخوبی چلتا رہا۔ قبائلی مشران اور عمائدین کے تعاون سے ان علاقوں تک حکومت نے سڑکوں کا ایک جال بچھایا اور وہ علاقہ جو 1947 میں حکومتی کارندوں کیلئے صرف 25 فیصد قابل رسائی تھا وہ 2005 میں 75 فیصد کھل گیا تھا اور اس کو حکومت کیلئے کھولنے میں سابقہ فاٹا کے قبائلی عمائدین کے تعاون کا بڑا عمل دخل شامل تھا۔ اب اگر امن و امان کی صورتحال کا موازنہ کیا جائے تو ماضی کے مقابلے میں جرائم کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔کوئی بھی نظام یکسر نہ تو خراب ہوتا ہے اور نہ ہی بہت بہتر، بلکہ خامیوں کو کم سے کم کرنا اور خوبیوں میں اضافہ کرنا وہ عمل ہے جو کسی بھی نظام کو دوام بخشتا ہے۔ سابقہ فاٹا یا موجودہ ضم اضلاع میں اس حوالے سے موثر اقدامات کی ضرورت اب بھی محسوس کی جارہی ہے۔اب کچھ دیگر اہم امور کا تذکرہ ہوجائے۔ ایک اُمید تھی کہ عالمگیر دنیا میں چونکہ ممالک ایک دوسرے پر منحصر ہوں گے اس لیے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک دونوں کو فائدہ ہوگا۔ 2005 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب دی ورلڈ از فلیٹ میں تھامس فریڈمین نے لکھا کہ عالمگیر دنیا میں تاریخی اور جغرافیائی تقسیم بتدریج ختم ہوجائے گی اور تاجروں کو یکساں ماحول فراہم کیا جائے گا جس کے تحت وہ عالمی منڈی میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرسکیں گے۔جبکہ دوسری جانب ایشیا میں سیاسی و معاشی منظرنامے میں بھی تیزی سے تبدیلیاں آرہی تھی۔ ایشیا میں چین طاقتور اقتصادی قوت بن کر سامنے آیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی طاقت اب ایشیاء کی جانب منتقل ہورہی ہے۔ 2008 میں لکھی گئی کتاب”دی نیو ایشین ہیمسفیئر: دی اِرریسسٹیبل شفٹ آف گلوبل پاور ٹو دی ایسٹ“ میں یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ اکیسویں صدی میں مغربی معیشت، تصورات اور اقتدار کو سنگین چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔بظاہر لگتا ہے کہ دنیا عالمگیریت کے خاتمے یا ڈی گلوبالائزیشن کی جانب گامزن ہے۔ یہ کوئی ایسا مستقبل نہیں ہے جس کی خواہش کی جائے کیونکہ عالمی سلامتی کیلئے بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے‘موسمیاتی تبدیلی جیسے مشترکہ مسائل سے ممالک انفرادی طور پر کبھی بھی نمٹ نہیں سکتے۔ جبکہ دوسری طرف مغرب نہیں بلکہ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے عالمگیریت کا علم بردار بن کر سامنے آرہا ہے۔ان مشکل حالات میں پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے لئے بہترین حل یہی ہوگا کہ وہ اپنی معاشی جغرافیائی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، خود انحصاری کے لئے اپنی مدد آپ کی حکمتِ عملی اپنائیں۔ہماری توجہ اس بات پر ہونی چاہئے کہ ایک خوشحال جنوبی ایشیا ء کے لئے اپنے خطے کے اندر رابطے اور تجارت کی اہمیت پر زور دیں اور خطے سے باہر اپنے اقتصادی تعلقات کو ہر ممکن حد تک مضبوط بنائیں‘ خوش قسمتی سے پاکستا ن ایسے خطے میں واقع ہے جو موجودہ حالات میں معاشی سرگرمیوں کا عالمی مرکز بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے اور چین اس ضمن میں پاکستان کی جو مدد کر رہاہے اس سے ہمیں استفادہ کرنا چاہئے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ