مشہور معالج اور کئی کتابوں کے منصف ڈاکٹر حفیظ اللہ اپنی کتاب”قلب منیب“ میں رقم طراز ہیں کہ”ہم مکہ معظمہ میں تھے،جمعہ کا دن تھا اور ہمیں نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے حرم پہنچنے میں تھوڑی دیر ہوگئی، ہم فہد گیٹ سے حرم میں داخل ہوئے اور عبدالعزیز گیٹ تک گئے، مگر نماز کیلئے کھڑے ہونے کی جگہ نہ پا سکے۔ پھر اچانک ایک پوری قطار کی جگہ خالی ہوگئی، ہم نے تھوڑی دیر انتظار کیا کہ شاید ہمیں وہ خالی جگہ لینے پر کوئی اعتراض کرے مگر خاموشی رہی، ہم نے جلدی جلدی وہ خالی جگہ قابو کرلی اور براجماں ہوگئے۔ ہم نے اپنی جائے نماز بچھا لی اور تحیتہ المسجد کیلئے کھڑے ہوگئے، میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو دل ڈوبنے لگا کہ ہمارے سامنے دیوہیکل ستون ایستادہ تھے اور خانہ کعبہ کا نظارہ نہیں ہو پارہا تھا۔ تب ہمیں پتا چلا کہ لوگوں نے یہ جگہ کیوں خالی چھوڑی تھی۔میں نے بھی معنی خیز انداز میں اپنے
بیٹے کی طرف دیکھا۔ حرم شریف میں نماز کیلئے جگہ کی اہمیت اس حوالے سے ہے کہ نظر اٹھا کردیکھیں تو سامنے خانہ کعبہ نظر آرہا ہو۔ حرم پاک میں نماز پڑھنے کیلئے آنے والے سب سے پہلے خانہ کعبہ کے سامنے کی جگہ کاانتخاب کرتے ہیں جہاں سامنے امام کعبہ نظر آتے ہیں اور اس کے بالکل مخالف سمت میں حطیم ہے۔ کعبہ کے اندر دیگر مقامات اور بالائی منزل پر جگہ کی اہمیت وہاں کے نظارے سے مشروط ہے۔خواہ کوئی نوافل ادا کررہاہو، قرآن پاک کی تلاوت کررہا ہو یا ذکر و اذکار میں مصروف ہو، اس کی نظر جب اٹھتی ہے تو سب سے پہلے سامنے پڑتی ہے۔ خانہ کعبہ کے نظارے کی خواہش غیر ارادی طور پر دل میں مچلنے لگتی ہے۔ اس روح پرور نظارے سے فرزندان توحید اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔ سامنے کے مناظر کی جھلک ذہن کے در کھول دیتی ہے اور کعبہ کی زیارت کا منظر قدرتی طور پر قلب کی طمانیت کا باعث بنتا ہے۔ یہ مناظر انسان کی روحانی بیٹریوں کو ری چارج کرنے کاکام کرتے ہیں اور حرم شریف میں ایسے مناظر قلبی سکون کے ساتھ فیوض و برکات سے بہرہ ور ہونے کا بھی باعث ہیں۔حرم شریف میں اکثر لوگ اپنا بیشتر وقت عبادت و بندگی میں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں
تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف خانہ کعبہ کا نظارہ کرنے میں محو ہوتے ہیں‘ بلاشبہ اس نظارے کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں‘ دیدار کعبہ میں مصروف لوگوں کے چہروں پر خوشی اور جذبات کے تاثرات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ خانہ کعبہ میں پہلی بار آنے والوں کے جذبات ہی کچھ الگ ہوتے ہیں۔ آخر کیوں نہ ہوں کیونکہ ان کی زندگی بھر کا سہانا خواب آج شرمندہ تعبیر ہورہا ہے‘ان کی دلی آرزو پوری ہوجاتی ہے‘ان کے ارمان پورے ہوتے ہیں۔“ ڈاکٹر حفیظ اللہ کی کتاب سے اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ وہ کیفیت ہے جسے الفاظ کا لبادہ پہنانا نہایت مشکل ہے تاہم پھر بھی مصنف نے جس طرح اس منظر کو الفاظ کا جامہ پہنایا ہے اور اپنے جذبات کو قلم بند کیا ہے وہ ان کے زور قلم کی دلیل ہے، اس کیفیت کو وہی افراد بخوبی سمجھ سکتے ہیں جو ان انمول لمحات کے شاہد ہوں۔