ہمارے شہر: وسائل کم‘ مسائل زیادہ

پہلی حقیقت دنیا کی نصف سے زیادہ یعنی پچپن فیصد آبادی شہروں میں مقیم ہے۔ دوسری حقیقت سال 2050ء تک تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی کا تناسب پچپن فیصد سے بڑھ کر 68 فیصد ہو جائے گا اور تیسری حقیقت: پاکستان کا شمار دنیا میں بڑی آبادی رکھنے والے ایسے ممالک میں سے ہوتا ہے جہاں کے عوام کی اکثریت بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہتر معاش اور سہولیات کیلئے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے جس میں مختلف دیگر وجوہات کی بنا پر اضافہ ہو رہا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ شہری زندگی سے متعلق حکومتی پالیسی کے چھ جز (صحت‘ تعلیم‘ صفائی ستھرائی‘ نکاسیئ آب اور نقل و حمل یعنی پبلک ٹرانسپورٹ) میں حکومت کی جانب سے خاطرخواہ سرمایہ کاری نہیں ہو رہی اور یہی وجہ ہے کہ عوامی خدمات کی بڑھتی ہوئی فراہم کردہ بنیادی سہولیات سے ہم آہنگ نہیں۔ شہری علاقوں میں بہتر نقل و حمل اور تعلیم کی فراہمی کے بارے میں بہت زیادہ بات کی جاتی ہے لیکن شہری منصوبہ بندی پر بحث میں بھی صحت کی دیکھ بھال کا زیادہ ذکر نہیں ملتا۔ شہری پالیسی شہر اور شہر کے رہائشیوں کیلئے صحت کے نتائج کو بہتر بنا سکتی ہے اگر عوامی صحت کے فروغ اور تحفظ کو شہر اور ٹاؤن پلاننگ کے وقت ترجیح رکھا جائے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ شہری علاقوں میں جہاں صحت کی عدم مساوات اور صحت کی دیکھ بھال کا نظام بنیادی ڈھانچے سے ناقص ہے اِس کے اثرات دیہی علاقوں پر بھی مرتب ہو رہے ہیں‘ شہر ہوں یا دیہات نئی آباد ہونے والی بستیوں میں نکاسیئ آب کا نظام اور سبزہ زار نہیں بنائے جاتے جس کی وجہ سے گھٹن کا احساس ہوتا ہے۔ غریب اور غیرمنصوبہ بند علاقوں میں صحت کے مناسب بنیادی ڈھانچے اور معاشی مواقع تک رسائی کی کمی معاملات کو مزید خراب کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن بہتر ہوا کے معیار‘ پانی‘ صفائی ستھرائی‘ دھوئیں سے پاک ماحول‘ محفوظ اور صحت مند رہائشی علاقوں کے ساتھ بیماریوں سے نمٹنے کی تیاری و انتظام اور شہری علاقوں میں صحت کی ہنگامی بنیادوں پر تیاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے لیکن جب ہم اپنے ہاں شہروں کو دیکھتے ہیں تو اِن میں سہولیات کا معیار دیہی علاقوں جیسا کم تر نظر آتا ہے۔ اِس صورتحال کی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے جس کے باعث وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں! غیر ترقی یافتہ بنیادی ڈھانچہ اور ناقص رہائش اور صفائی ستھرائی کے نظام کی درستگی کے بغیر مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ شہروں میں پائی جانے والی فضائی آلودگی سے صحت عامہ کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اندازوں کے مطابق شہری علاقوں کی نوے فیصد آبادی آلودہ ہوا میں سانس لیتی ہے جو بیماریاں کا باعث اور اِس سلسلے میں پشاور شہر کے مصروف ترین تجارتی گھنٹہ گھر‘ چوک یادگار‘ قصہ خوانی میں آلودہ ترین ہوا پائی جاتی ہے جبکہ لاہور جیسی سموگ کی صورتحال بھی پشاور میں دیکھی جا رہی ہے۔موجودہ حالت اور حالات میں شہری علاقوں کو صحت کے متعدد خطرات کا سامنا ہے۔ سب سے پہلے غیر متعدی بیماریوں جیسا کہ دل کی بیماری‘ ذیابیطس اور دمہ کا بڑھتا ہوا بوجھ ہے‘ جو غیر صحت مند زندگی اور کام کاج کے دباؤ کی وجہ سے بدتر ہو گیا ہے۔ ذیابیطس موٹاپے اور جسمانی غیر فعالیت سے جڑی بیماری ہے‘جو دیگر عوامل کے علاؤہ سبززاروں کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ غیر صحت مند طرز زندگی شوگر کی بیماری کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ غربت اور سماجی تناؤ کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں اضافہ دیکھا گیا ہے لیکن شاہراؤں پر ہونے والے اکثر حادثات خراب طور پر ڈیزائن کئے گئے ٹرانسپورٹ سسٹم اور ٹریفک قواعد و ضوابط پر کمزور عمل درآمد کی وجہ سے پیش آ رہے ہیں۔ یورپ کے بہت سے شہروں میں ”صحت اور زندگی کے آپسی تعلق کو سمجھتے ہوئے ترقیاتی حکمت عملیاں تشکیل دی جا رہی ہیں جس کیلئے عالمی سطح پر تعاون کا ایک نیٹ ورک بھی تشکیل دیا گیا ہے۔ پاکستان کے فیصلہ سازوں کو دیگر ممالک کے شہری منصوبہ سازوں کی حکمت عملیوں اور تجربات سے سیکھتے ہوئے شہری علاقوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔ منصوبہ بندی کے ذریعے ماحول دوست ترقیاتی حکمت عملیاں اپنا کر تھوڑے مالی وسائل سے بھی شہری صحت کی بہتری کے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں جس کے سوچ اور مسائل کو دیکھنے کے زوائیوں کو تبدیل کرنا پڑے گا۔