اگلے چو ک میں 

یہ لوگ خود ایک دوسرے کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر کے مریض بن رہے ہیں۔گویا ہمارا معاشرہ ہماری جسمانی اور خاص طور پر ذہنی بیماریوں کی نرسری بن چکا ہے۔ہم اپنی حرکتوں کی وجہ سے ایک دوسرے کو کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا کر رہے ہیں۔چھوٹا سا شہر ہے چھوٹی چھوٹی محدود سڑکیں ہیں مگر قریب کی منزل کو پہنچنے کے لئے ہمیں لمبا راستہ ناپنا پڑتا ہے کیونکہ رش ہے۔انسانوں کا وہ ہجوم ہے کہ بھیڑ بکریوں کی طرح کوئی کہاں جا رہا ہے اور کہاں سے کہاں آ رہاہے۔کوئی بغل بیچ سے نکل رہا ہے اور کوئی سے ٹکرا کر جاتا پڑا ہے۔غرض جس طرف کو منہ موڑو کسی نہ کسی کو خود سے ٹکراتے ہوئے پاؤ۔ دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے تہذیب یافتہ معاشرے بھی ہیں مگر مجال ہے کہ وہ اپنے لگے بندھے اصولوں سے بال برابر بی اِدھر اُدھر ہوتے ہوں۔ پیدل چلنے والوں کے اپنے طور طریقے ہیں اور گاڑی والے کا اپنا سٹائل ہے۔ کوئی کسی کی راہ میں مداخلت نہیں کرتا۔ مگر یہاں ہم لوگ ہیں کہ ایک دوسرے کے راستے میں گھسے جاتے ہیں۔مریض اس لئے بناتے ہیں کہ ایک ہی چھوٹے سے اور جگنو کی طرح مٹھی میں سماجانے والے شہر کے رہائشی ہیں۔مگر ہمہ وقت ایک دوجے سے الجھے رہتے ہیں۔ ایک ہی سڑک ہو گی اور وہاں گدھا گاڑیاں بھی ہوں گی گھوڑا گاڑیاں بھی گوبر لے جاتی ہوئی ملیں گی۔ساتھ موٹر کاروں میں نفیس قسم کی سواریاں لادی گئی ہوں گی اور بڑے ٹرک بھی ہوں گے جن میں مارکیٹ میں اندرونِ شہر لے جاکر اتارا جانے والا سامان بھی لدا پھندا ہوگا۔ بائی سائیکل والے بھی بیچ میں گھسے ہوں گے اور بچے بھی اس رش میں گاڑیوں کے آگے آگے دوڑ رہے ہوں گے۔آگے نہ دیکھیں گے نہ ہی نیچے دیکھیں گے۔سرِ آسمان بو گاٹا ہوتی ہوئی پتنگوں پر نظر کر کے کسی نہ کسی سے ٹکراتے جائیں گے۔چنگ چی ہیں تو وہ ہائی سپیڈ میں ہوں گے‘ یوں کہ آپ کے ساتھ ٹکرانے سے بال بال بچ جائیں گے۔وہی سڑک ہوگی اور سکول کی بسیں رنگا رنگ کلر لئے دوڑتی پھرتی ہوں گی۔ایک چوک کے رش سے جان چھوٹے گی تو اگلے چوک میں دوسری بھیڑ بھاڑ میں قید ہو کر رہ جائیں گے۔بس ایک ہو ہا کا عالم ہے۔کوئی کسی سے پوچھنے والا نہیں ہے کہ یہ کیا کر رہے ہو کیوں کر ر ہے ہیں۔ بس وہ بھی ان غلطیوں کے اوپر ایک اور غلطی دہراتے ہوئے جاتے جائیں گے۔یہ رکشہ والے تو سارے زمانے سے نرالے ہیں یارب یہ کون سی بستی کے رہنے والے ہیں جو سوزوکیوں کے درمیان میں پھلجڑی کی طرح دوڑتے جاتے ہیں۔اچانک آپ کے آگے جاتے ہوئے مڑ جائیں گے۔ کوئی دائیں سے آکر یوٹرن کرے گا اور چھوٹی سی سڑک پر بڑی گاڑی کو موڑے گا اور سارے ٹریفک کو یرغمال بنا لے گا۔ جب مڑ جائے گا تو ساری گاڑیوں کو اپنے پیچھے گھسیٹتے ہوئے لے جائے گا۔ اس کے آگے جب تک کوئی کھلا مقام نہ آئے اورخود اس کوراستہ نہ ملے وہ کسی کوراستہ دینے کی پوزیشن ہی میں نہیں ہوگا۔بس اس شہر ِ پشاور میں چلنا پھرنا یا گاڑی میں گھومنا ایک الگ ہی مسئلہ ہے۔ہر ایک کو جلدی ہوتی ہے خواہ سرکاری گاڑی ہو یا پرائیویٹ کوئی چارپایہ ویکل ہو بس دوڑتے جاتے ہیں او رکسی میں صبر کا کوئی کام نہیں ہے۔آپ کو ہارن ہارن پہ ہارن دیں گے کہ آگے سے ہٹو۔اب خدا نہ کرے اگر اس موقع پر کوئی ایمبولینس ہو تو بندہ ایمرجنسی کی حالت میں ایک طرف ہو جائے اور ان کوراستہ دے۔ مگر اس قسم کی ہیبت ناک کوئی بات نہیں ہوتی۔ بلکہ انھوں نے ایمرجنسی کا سا مصنوعی حال بنایا ہوا ہوتا ہے۔ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم آگے سے ہٹو۔ مگر میرے لئے راستہ ہو تو بیشک میں آپ کو راستہ دینے کے لئے تیار ہوں۔ میرے لئے تو اس وقت ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ میں خود کو اپنے بائیں جانب بہتے ہوئے گٹر میں یا ابلتے ہوئے نالے میں گرا دوں اور بال بچوں سمیت زخمی ہو کر ایک طرف پڑا رہوں۔پھر ان کو آگے جانے کیلئے راستہ دوں۔یہ کیا ہورہا ہے اور کب تک ہوگا بس ہے اب ہمیں سدھر جانا چاہئے۔ٹریفک کے اس گرم بازار میں ہر ایک کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے۔دوسرے کے راستے کو کچل کر آگے بڑھنا تو انتہائی غلط کام ہے جو ہم روزانہ تھوک کے حساب سے سرانجام دیتے ہیں۔