تربت میں پہلا ’خواتین پولیس اسٹیشن‘ ذرائع ابلاغ کی نظروں میں ہے جو بلوچستان میں قائم ہونے والے اِس دوسرے پولیس اسٹیشن کے فعال ہونے کو خوش آئند پیشرفت قرار دے رہے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچستان کے پہلے خواتین پولیس اسٹیشن کے افتتاح کے بعد دیگر 34 اضلاع میں خواتین کے پولیس اسٹیشنز کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس کے لئے مجموعی طور پر 280 نئی خواتین پولیس افسران بھرتی کی جائیں گی۔ بلوچستان میں خواتین کے پولیس اسٹیشنز کا قیام اِس لئے اہم ہے کیونکہ وہاں خواتین کے لئے کام کاج کے مواقع کم ہیں حتیٰ کہ اُن کے لئے گھروں سے باہر نکلنے پر عائد سماجی پابندی اور امتیازی سلوک اجنبی نہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یو این او ڈی سی) کے مطابق پاکستان کی مجموعی پولیس فورس میں خواتین اہلکاروں کی تعداد ڈیڑھ فیصد سے کم ہے! اس دائمی صنفی عدم مساوات کے نتیجہ میں ایک ایسا نظام سامنے آیا ہے جس میں خواتین اپنے تحفظ اور معاشی مستقبل کے لئے پریشان دکھائی دیتی ہیں جبکہ اُن کے خدشات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا جس کے اکثر منفینتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنسی حملے اور صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات جس تواتر سے پیش آ رہے ہیں اُس سے مسئلے (بحران) کی سنگینی کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے۔ خواتین پولیس اہلکاروں‘ ججوں اور وکلأ کی کمی کی وجہ سے جنسی زیادتی اور صنفی تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین آگے آنے اور اپنے الزامات لگانے والوں کے خلاف مؤقف اختیار کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ نتیجتاً خواتین کے خلاف تشدد‘ خاص طور پر جنسی تشدد‘ بڑے پیمانے پر جاری ہے کیونکہ حکام سخت سزائیں اور متاثرین کے لئے زیادہ قانونی تحفظ کی منظوری کے باوجود مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں بلوچستان میں خواتین کے نئے تھانوں کا افتتاح بہت ہی اہم پیشرفت ہے اور اِسے عالمی اداروں نے بھی سراہا ہے۔ جب مؤثر پولیسنگ کی بات آتی ہے تو یہ کثیرالجہتی معاملہ ہوتا ہے جو تعلیم و صحت کی دیکھ بھال سے لیکر اِس کا اطلاق زندگی کے سبھی دیگر (تمام) شعبوں پر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے‘ صنفی مساوات کے حصول کو مشکل سے زیادہ مشکل بنا دیا گیا ہے اور قوانین و قواعد مرتب تو کئے جاتے ہیں لیکن اِن کا خاطرخواہ اطلاق نہیں ہوتا۔ ضرورت ہر شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی شرکت بڑھانے کی ہے جس کے لئے خواتین کے خلاف متعصبانہ روئیوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اور قوانین و قواعد کے اطلاق کی ایسی عملی مثالیں بھی قائم کرنے کی ضرورت ہے جس سے پاکستانی معاشرہ ایک مثالی صورت میں اُبھر کر سامنے آئے یقینا خواتین کے بارے میں سماج کے عمومی روئیوں کو تبدیل ہونے میں وقت لگے گا لیکن اگر قانون و انصاف کی فراہمی سے ابتدا کی جائے تو اِس کے ثمرات خواتین کو تعلیم اور ملازمت جیسے بنیادی حقوق کی راہ بھی ہموار کر دیں گے۔ اگرچہ تربت میں خواتین کا پولیس اسٹیشن واضح طور پر درست سمت میں ایک قدم ہے لیکن یہ بلوچستان میں صرف دوسرا ایسا پولیس اسٹیشن ہے جو 1994ء کے بعد بعد قائم ہوا ہے۔ اگر ایک پولیس اسٹیشن اور دوسرے پولیس اسٹیشن کے قیام میں اٹھائیس سال سے زائد عرصہ لگا ہے تو یہ یقینا یہ درست نہیں اور تاخیری اقدام ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ پولیسنگ اور دیگر شعبوں میں خواتین کی شرکت کو فروغ دینے کی کوششوں میں تیزی لائی جائے گی۔ خواتین کے کردار کو محدود کرنے کی بجائے اُنہیں شانہ بشانہ قومی ترقی میں کردار ادا کرنے کے لئے ہر ممکن تحفظ و سہولیات فراہم کی جائیں گی۔