سورج اور بادلوں میں آ نکھ مچولی

برصغیر کے موسموں کو مد نظر رکھتے ہوئے فرنگیوں نے اپنے دور حکومت میں  اپنے تجربات کی بنیاد پر یونیفارم پہننے والی سروسز کے افراد کیلئے کچھ اس قسم کا ٹائم ٹیبل بنا رکھا تھا کہ ہر سال 16 اپریل کو گرمیوں والا یونیفارم کا وقت شروع ہو جاتا تھا اور پھر 16 اکتوبر کی تاریخ جب آ تی تھی تو سردیوں کے واسطے مقررہ یونیفارم کا استعمال شروع ہو جاتا تھا بالفاظ دیگر 16 اپریل سے لیکر 16 اکتوبر تک گرمیوں کا پہناوا اور پھر آئندہ 6 ماہ کیلئے یعنی 16 اکتوبر سے 16 اپریل تک سردی کا پہناوا  یونیفارم پہننے والی سروسز جیسے کہ  افواج پاکستان پولیس اور پیرا ملٹری فورسز سے تعلق رکھنے والے افراد استعمال کیا کرتے تھے  اب موسمیاتی تبدیلی سے یہ سسٹم تلپٹ ہوتا نظر آ رہا ہے لگ یہ رہا ہے کہ اگر موسم کی یہی کیفیت  رہی اور سورج اور بادل آ پس میں آ نکھ مچولی کھیلتے رہے تو موسم گرما شاید مئی میں جا کر شروع ہو‘سردیوں اور گرمیوں کے درمیان بہار کا جو ایک آ دھ مہینے کا وقت ہوتا تھا وہ اب آدھا آدھا کر کے موسم سرما اور موسم گرما کھا جائیں گے‘ رمضان شریف کا مہینہ آدھا موسم سرما اور آدھا موسم گرما میں گزرنے کے امکانات  نظر آ رہے ہیں‘کہا یہ جا رہا ہے کہ جس طرح امسال جاڑے نے اپنا جوبن دکھایا ہے بالکل اسی طرح گرمیاں بھی اپنے عروج پر ہوں گی اور اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ گلیشیئر پگھلنے سے وطن عزیز سونامی جیسے سیلابوں کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جو بات تشویش کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ یار لوگوں  نے ملک بھر میں پانی کی قدرتی گزر گاہوں میں یا تو تعمیرات کی ہوئی ہیں اور یا پھر جگہ جگہ  ان میں کچرا پھینک کر انہیں غیر دانستہ طور پر بلاک کیا ہواہے جس کی وجہ سے ملک کے کئی شہر  معمولی بارش سے بھی طغیانی کا شکار  ہو سکتے ہیں کیا ہمارے متعلقہ ادارے موسم گرما سے پہلے پہلے ان  پانی کی قدرتی گزر گاہوں کو صاف کر پائیں گے اس ضمن میں تمام  وزرائے صحت کو ابھی سے  سیلابوں کے موسم میں ممکنہ بیماریوں جیسا کہ ڈینگی ملیریا ٹائیفائڈ کے پھوٹنے کے امکانات کو مد نظر رکھتے ہوئے ابھی سے مناسب ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے۔  اگر آپ کو مہمند ایجنسی جانے کا اتفاق ہو کہ جسے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کے بعد اب ضلع مہمند کہہ کر پکاراجاتا ہے تو  شبقدر کے نزدیک پیر کلے سے آ گے یکہ غنڈ غلنئے میاں منڈی  اور پھر نا حقی کنڈاؤ کراس کرنے کے بعد آپ صافی قبیلے کے علاقے میں داخل ہوتے ہیں اسی سڑک پر جو باجوڑ کی طرف جاتی ہے  ناحقی کنڈاؤ سے چند میل آ گے آپ کو بائیں طرف جاتی  ایک سڑک دکھائی دے گی جو چمرکند کی جانب جاتی ہے جو مہمند اور باجوڑ کی جغرافیائی حد بھی ہے‘ بل کھاتی ہوئی یہ سڑک درہ نوا  جسے نوا پاس Nava pass کہتے ہیں آگ جا کر افغانستان کی حدود میں چند میل کے  بعد داخل ہوتی ہے اور پھر وہ میر کھنی کے مقام پر ضلع چترال میں داخل ہوتی ہیں اس تمہید باندھنے کا ہمارا مقصد یہ تھا کہ نوا پاس سے گزر کر نہ صرف ہم ایک نزدیک رستے سے افغانستان بھی جاسکتے ہیں بلکہ برفباری کے دنوں میں جب لواری ٹاپ والا رستہ بند ہو جاتا ہے تو نوا پاس کے رستے ہم میرکھنی تک بہ آسانی پہنچ سکتے ہیں جو چترال کا حصہ ہے پر یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ جب افغانستان سے ہمارے تعلقات نار مل ہوں اگر افغانستان سے ہمارے تعلقات ٹھیک ہوں تو ہم طورخم کراس کر کے ہیرات کے رستے ایران کے شہر  مشہد جا سکتے ہیں اور پشاور سے مشہد کا یہ سفر چند گھنٹوں میں بذریعہ سڑک طے ہو سکتا ہے جبکہ آج کل اسے طے کرنے میں دو دنوں سے زیادہ کاعرصہ لگتا ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر پاکستان ایران اور افغانستان سیاسی اور معاشی لحاظ سے یک جان دو قالب ہو جائیں تو یہ ان تینوں ممالک کے باسیوں کے واسطے آ سانیوں کے کئی راستے کھول دے‘خدا ان تینوں ممالک کے ارباب بست و کشاد کو یہ فہم عطا کرے کہ وہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کو اپنی معیشت اور عوام کی بھلائی کیلئے استعمال کریں نہ کہ اغیار کے کہنے پر ایک دوسرے سے مشت و گریباں ہونے کے واسطے۔