ہم پر کیا کیا ریلے آکر گزر نہیں گئے۔مگر ہم نے منہ سے اُف تک نہ کی۔ماتھے پر پیسنہ نہیں آیا‘ماتھے میل نہیں آیا‘مگر دانتوں پسینہ بھی آہی جاتا پر ہم نے سہا‘کتنی کتنی بار راستے میں موٹر سائیکل بند ہو گیا مگر ہماری غیرت کا تقاضا تھا کہ منہ سے برے بول نہیں بولنے۔ ہم نے مہنگائی کو برداشت کیا‘اپنے عزم پر ڈٹے رہے‘ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح۔کہ یہ لوگ جتنا بھی پٹرول کو مہنگا کر دیں ہم نے سو روپے ہی کا ڈلوانا ہے‘پٹرول جب ارزاں تھا یہ ان دنوں کی باتیں ہیں مگر بعد میں مختلف اوقات میں گاہے گاہے یا تواتر سے پٹرول مالکان نے مہنگا کرنے کی قسم جو کھارکھی تھی‘ مگر یہاں ہم بھی تو اپنی ضد پر اڑے رہے‘جا کر اسی پٹرول پمپ پر واپس آتے مگر اپنی آن کو نہ چھوڑا‘گذشتہ روز پٹرول پمپ پر جاکر بریک کھینچے کیونکہ مہنگا ہونے کے ڈرسے پانسو کا جو ڈلوایا تھا وہ تو اب ختم ہونے کو تھا اس سے پہلے کہ بائیک اڑیل گدھے کی طرح بیچ راہ میں کھڑی ہو جائے اور آگے جانے سے انکار ہی کردے تو پھر بھی یہ گدھا تو نہیں کہ دو چار بید مار کے اور پلاسٹک کی خالی بوتل میں چھوٹے پتھر ڈال کر ا س کی کمر پر یہ جھنجھنا بجائیں اس کو بھگائیں‘ اس لئے پمپ پر رنگین یونیفارم پہنے اہلکاروں کے سامنے جا کھڑے ہوئے مگر دیکھا کہ پٹرول کی طلب میں ایک بائیک کے بعد دوسرا بائیک آ رہا ہے‘سوچ میں تھا کہ یہ رش کیوں ہونے لگا ہے پھر جو موٹر سائیکل آرہے تھے وہ آ نہیں رہے تھے لائے جا رہے تھے وہ لائے بھی تو نہیں جا رہے تھے گھسیٹ کرجانوروں کی طرح ہانک کر لا موجود کئے جا تے تھے‘اندازہ ہو گیا کہ اوہو یہ جو تین دن ہم نے سکون سے گزارے یہ آرام کے شب و روز نہ تھے اس دوران تو بڑی آفت پڑی ہے شک ہوا تو پٹرول بوتھ کی لکھائی پر نظر گئی‘وہاں دیکھا تو پٹرول مزید مہنگا ہو کر کچھ کم تین سو روپے میں لیٹر تھاکسی سے کیا کہتے چپ ہو رہے ہمیں معلوم تھا کہ جلد ہی پٹرول کو آگ لگنے والی ہے ا س وجہ سے کہہ دیا کہ یارتین سو کا ڈال دو‘اب کیا وہ جیبوں میں بھان ٹٹولے گا‘چلو یہ بھی ہماری بڑی کامیابی ہے کہ تین سے اوپر کا ڈال دیا تھا‘میری طرح شہریوں کے موٹر سائیکل بھی تو تیل ختم ہوجانے پر ضدی گائے کی طرح کھینچ کر یہاں لائے جا رہے تھے‘موٹر بائیک کا یہ حال تو موٹرکار کا کیا حال ہوگا؟ پھر بڑی گاڑیوں کا جو بڑا سازو سامان لے کر شہر سے اندر اور باہر آتی جاتی ہیں کیا حالتِ زار ہوگی مگر خیال آیا کہ رنگ روڈ پرسے گزر رہا تھا تو ہاں گڈز ٹرانسپورٹ کے اڈوں پر بہت سی گاڑیاں کھڑی دیکھی تھیں‘ہاں یہی کہ پٹرول کے مہنگا ہونے پر ڈرائیور حضرات ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے ہوں گے‘ہفتہ پہلے کی بات ہے پٹرول ڈلوا رہا تھا توپوچھا پٹرول بوتھ کے پاس کھڑے اہلکار نے جواب میں کہا یہا ں لوگ کم سے کم پٹرول پچا س کا ڈالتے ہیں‘ اب پچاس کا بھی کیا پٹرول ہوگا اور پھر ہم سو کا کہہ رہے ہیں تو سو قطرے ہی ہوں گے مگر اب کے تو نئے ریٹ میں سو روپے کا نوٹ دے کر صرف پٹرول کی بُو ہی سونگھ سکتے ہیں‘یہ نہ ہو کہ کل کو پٹرول سونگھنے پر بھی قیمت ادا کرنا پڑے‘امجد اسلام امجد کی نظم کے وہ اشعار یاد آنے لگے ”زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں“تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے ہیں“”وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے“ ”سخت بے زمینی ہے سخت لا مکانی ہے ”اب آگے تک نہیں جاتا کہ جہاں وہ مصرع ہے ”تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے“کیونکہ صرف پٹرول ہی تو گرانی کا شکار نہیں‘ بس یہ کرنا ہے کہ اب موٹر سائیکل کو گھر میں سنبھال کر رکھنا ہے۔کم سے کم سے نکلنا ہے‘سودا سلف کی ضروریات کو ایک جگہ لکھ کر پلاننگ کے ساتھ گھر سے باہر قدم رکھنا ہوگا تاکہ ایک ہی چکر میں سارے کام نپٹ جائیں اس طرح پٹرول کی بچت بھی ہو جائے‘ہائے ہم نے کس کس طرح پٹرول کی گرانی کو سہا مگر اب کے تو ہماری سہار او رنہیں ہے‘ماتھے پر میل آنا شروع ہوگیا ہے اور دانتوں پسینہ آنے لگا ہے‘یوں ہے کہ جیسے لوہے کے چنے ہوں اور چبانے ہوں۔اب تو ہم نے بھی کم از کم تین سو کا ڈالوانا ہے تاکہ ایک آدھ دن تو آسانی سے گزر جائے‘ پھر کل کی کل ہی دیکھی جائے گی‘اب تو پٹرول کی وجہ سے خاندان اور دوستوں کی تقریبات میں آنا جانا بھی کم ہوجائے گا۔