مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد کا انداز بیان ایسا ہے کہ وہ قاری کو اپنی گرفت میں لے کر اسے شروع سے آخر تک تحریر پڑھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور پھر اگر یہ تجربات اور مشاہدات ایک ایسی شخصیت کی زندگی کا نچوڑ ہوں جو معاشرے کے روئیوں پر گہری نظر رکھتے ہوں تو یقینا ان میں پڑھنے والوں کیلئے بہت کچھ ہوتا ہے۔ اپنی نشری تقریر میں بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ جب پاکستان بنا اور میں یہاں آیا تو اکیلا میں یہاں تھا‘ میرے گھر کے لوگ ساتھ نہیں آسکے‘ ہم بلند شہر کے رہنے والے تھے‘میں نے الہٰ آباد یونیورسٹی سے بی اے کیا تھا اور فرسٹ ڈویژن میں کیا تھا اور لائق لڑکا تھا‘ یہاں آکر میں لاہور میں نہر کنارے، یہ جونہر ہماری لاہور کے بیچ چلتی ہے، کھڑا تھا اور بے یار ومددگار یہ سوچ رہا تھا کہ میں کہاں آگیا ہوں اور میری زندگی کس طرح سے یہاں پر بسر ہو رہی ہے‘اتفاق ایسا ہے کہ مجھے ایک شخص مل گیا، اس نے کہا، میرے بیٹے کو تعلیم دو، تم کو میں سو روپیہ مہینہ یا پچاس روپیہ مہینہ دیا کروں گا، چنانچہ کہنے لگا میں بڑی مشکل میں، تنگ حالی میں ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں ان کے بچوں کو پڑھاتا رہا‘ روٹی، کپڑا اور مکان یہ چیزیں مجھے میسر آئیں لیکن وہ بہت برے دن تھے اور میرے اوپر بہت بڑا بوجھ تھا اور میں بڑا دکھی تھا اور مجھے سب سے بڑا دکھ اس بات کا تھا کہ وہ خوراک جس کا میں عادی تھا وہ مجھے یہاں نہیں ملتی تھی، یہاں کی کچھ اور طرح کی تھی‘ تو کہنے لگا، اس کے بعد میں نے سی ایس ایس کا امتحان دے دیا جو پہلا امتحان ہوا تھا تو اس میں میں آگیا، تو پھر میں نے یہاں ٹریننگ لی‘ ٹریننگ لے کر میں یہاں پر ملتان میں اے سی لگ گیا تو وہاں پر زندگی کے دن گزارتا رہا، اس کے بعد میری سرگودھا تبدیلی ہوگئی تو پھر میں تھوڑی دیر بعد شیخوپورہ کا ڈی سی لگ گیا‘ شیخوپورہ کا ڈی سی لگنے کے بعد، میری خدمات جو تھیں، وہ سنٹرل گورنمنٹ نے لے لیں اور میں منسٹری آف کامرس میں چلا گیا‘ وہاں جانے کے بعد چار پانچ سال کی سروس کے بعد میرے صوبے پنجاب نے مجھے پھر مانگا اور میں یہاں آگیا‘ خیر وہ ایک زمانے میں لاہور کے کمشنر بھی رہے لیکن وہ کہتے ہیں میں بڑا دکھی ہوں۔یہ میرے البم دیکھیں‘ جس کسمپرسی کی حالت میں یہاں وقت گزارتا رہا ہوں، یہ بڑا درد ناک اور تکلیف دہ وقت تھا اور اللہ کسی کو ایسا وقت نہ دکھائے‘ اس کے بعد وہ یہاں سے ولایت چلے گئے‘ ولایت میں پاکستان کی نمائندگی انہوں نے U.N.O میں کی‘ اس کے بعد انہوں نے ورلڈ بینک میں ہماری نمائندگی کی یا انہوں نے خود سروس کرلی، وہاں رہے، وہاں سے ریٹائر ہوئے پھر ان کی ایک اعلیٰ درجے کے گھر میں، کوٹھی یہاں بھی تھی، کراچی میں بھی تھی‘ لیکن جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہے،وہ اپنے دکھ کا ہی ذکر کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں، بہت تکلیف دہ وقت میں نے گزارا‘ ان سے میں نے کہا، اتنا دکھی وقت کیا تھا‘ کہنے لگا، جس گھر میں رہتا تھا، وہاں پر ہر تیسرے روز ٹینڈے پکتے تھے اور مجھے ٹینڈے اچھے نہیں لگتے، تو میری زندگی کا دکھ سب سے بڑا یہ ہے کہ مرضی کے خلاف ٹینڈے کھانے پڑے‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میں کمشنر بھی رہا لاہور کا، لیکن مجھے ان ٹینڈوں کا دکھ نہیں بھولتا، آپ کو اکثر آدمی ملتے ہوں گے جوہر وقت زندگی میں اپنے ان دکھوں کی بات کرتے رہتے ہیں جو تھوڑے عرصے کیلئے آئے اور پھر گزر گئے اور اب وہ ٹھیک ٹھاک ہیں‘انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا، خدانے مجھ پر کیسے اچھے دن لائے اور میں کس خوش بختی کے ساتھ اپنی زندگی خوش و خرم گزار رہا ہوں‘اس تحریر کا حاصل مطالعہ یہی ہے کہ انسان کی زندگی یکسانیت کا شکار ہو جائے تو اس کے لئے وقت گزارنا مشکل ہوجاتا ہے‘حالانکہ یکسانیت سے چھٹکارا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوتا‘اور وہ اسی حالت کو مشیت ایزدی سمجھ کر قبول کے رکھتا ہے۔