چند اہم سوال

1947 سے لے کر اب تک ہم 23 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں۔غالبا ًآرجنٹائن دوسرا ملک ہے جو یہ عمل 21 مرتبہ دہرا چکا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے بجزاس کے کہ ہمارے مالیاتی امور کے ماہرین نے ملک کو چلانے کے طور طریقوں میں کوئی معنی خیز اصلاحات نہیں کیں۔ اگر معاشی اصلاحات کا عمل جاری رہتا اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اقدامات کئے جاتے تو آج ملکی معیشت کی یہ حالت نہ ہوتی۔ اس تجویز میں کافی وزن ہے کہ ایک قومی کمیشن کے قیام کی ضرورت ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں مل کر ایک اقتصادی ایجنڈا مرتب کریں جس پر حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود کام جاری رہے۔ یہ امر بھی قابل افسوس ہے کہ کفایت شعاری کے ایجنڈے پر جس طرح کام ہونا چاہئے تھا وہ اب تک نہیں ہوا۔ کاش کہ کوئی سیاسی لیڈر یا ماہر مالیات پارلیمنٹ اور میڈیا پر آ کر ذرا کھل کر قوم کو بتائے کہ کیا امر مانع ہے اپنے ہی وسائل پر انحصار کرنے کے بجائے ہم ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹا نے پر کیوں مجبور ہیں اور کیوں  وہ اقدامات نہیں اٹھا ئے جاتے جو نہایت اہم اور ضروری ہیں۔ ملک کی تمام معیشت کو دستاویزی کیوں نہیں کیا جاتا۔ ڈائرکٹ ٹیکسیشن کو کیوں نہیں لاگو کیا جاتا؟  ساتھ ہی ملک میں ہر قسم کی پر تعیش اشیاء کی درآمد کو  بند کیوں نہیں کیا جاتا۔پبلک ٹرانسپورٹ اور ریلوے کے پھیلا ؤکی حوصلہ افزائی کر کے بڑی بڑی لگژری گاڑیوں کی حوصلہ  شکنی کیوں نہیں کی جاتی؟میڈیا کے ذریعے لوگوں کو روزمرہ کی زندگی میں سادگی اور قناعت کی طرف راغب کرنے کے بجائے  نت نئی اشیاء جن کا شمار بنیادی ضروریات میں ہر گز نہیں ہوتا کی جانب کیوں راغب کیا جاتا ہے؟۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے سوال ہیں جن کے جوابات اگر سامنے آئیں تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ان چند ضروری ابتدائی کلمات کے بعد ذرا عالمی سیاسی منظر نامے پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔روس نے جن مقاصد کیلئے یوکرین پر حملہ کیا تھا وہ ان کو سو فیصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ ایک تو کسی سیاسی مبصر کا یہ خیال تک بھی نہ تھا کہ یوکرین کا صدر ایک نہایت ہی مضبوط اعصاب کا مالک نکلے گا اور یوکرین کی فوج اپنے سے کئی گنا مضبوط روسی فوج کے دانت کھٹے کر دے گی۔ یہ بات بھی البتہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ایک عرصے سے پس پردہ امریکہ اور اس کے یورپ میں حواری ممالک یوکر ین کی عسکری قوت کو مضبوط کر رہے تھے اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ روس اسے ہڑپ نہیں کر سکا۔ روس اور یوکرین کی اب تک جاری کشمکش نے  ان کئی ممالک کی معیشت کو بھی پامال کیا ہے جو اپنی توانائی کی ضروریات ان دو ممالک کی مدد سے پوری کیا کرتے تھے۔جب تک ان دو ممالک میں  جنگ کی جاری صورت حال کی گرد نہیں بیٹھتی دنیا تیسری عالمگیر جنگ کے خوف میں مبتلا رہے گی۔ ادھر چین اور امریکہ کے درمیان بھی ابھی تک تائیوان کا معاملہ الجھا نظر آ رہا ہے امریکہ چین کے اعصاب پر سوار رہنے کے واسطے تائیوان کی ہلہ شیری کرتا رہے گا۔