پشاور کا چترالی بازار 

آج میں پشاور کے اُس بازار میں بیٹھا ہوں جس کی مصنو عات پا کستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں ملتی ہیں نیز جلا ل آباد، کا بل، قندہار اور کوئٹہ تک جا تی ہیں چترالی ٹو پی اس بازار سے نکلی اور دنیا بھر میں پہنچی، چترالی چغہ اس بازار میں بنتا ہے اور دنیا کے کو نے کونے میں پسند کیا جا تا ہے۔ فر زند پشاور ڈاکٹر سید امجد حسین ٹو لیڈو امریکہ میں یہی چغہ زیب تن کر تے ہیں ہما رے غیر ملکی دوست جون بارٹ اپنی صحا فیا نہ زبان میں اس با زار کو ”لٹل چترال ان پشاور“ کہا کر تے تھے انہوں نے اپنے انگریزی اخبار کے میگزین میں اس عنوان پر ایک فیچر بھی شائع کیا تھا۔ پروفیسر ٹوائن بی نے پشاور میں بازار مسگران‘ قصہ خوانی اور پشاوری قہوہ خا نوں کا ذکر بڑے دلنشین پیرائے میں کیا ہے۔میں جہاں بیٹھا ہوں یہاں قند ھار کے لئے ما ل باندھا جا رہا ہے۔ مال میں چترالی ٹو پی، چترالی چُغہ اور پشاوری واسکٹ کی بڑی کھیپ ہے۔یہ خالص اونی کپڑوں سے بنی ہوئی مصنو عات ہیں جو چترالی بازار کے کاریگر بڑی مہا رت سے تیار کر تے ہیں‘پشاور کا چترا لی بازار نیا بھی نہیں شہر کے دوسرے بازاروں کی طرح سینکڑوں سال پرانا بھی نہیں‘ آج سے 80سال پہلے 1943ء میں یہ بازار چترالی تاجروں اور کاریگروں کو ملا، بازار کی ساخت اور تعمیرا تی صورت پرا نی ہے با لا خا نے بھی پرانے ہیں پرانی ثقافت کو ختم کر نے کے بعد اس کو اسلا م آباد بازار کا نا م دیا گیا، اس کے ایک حصے کو بازار ٹین گران بھی کہا جا تا ہے تا ہم عوامی نا م چترالی بازار پڑ چکا ہے۔ قصہ خوا نی بازار میں یا د گار شہداء سے چند گز کے فا صلے پر پھو ل والوں کی گلی سے چترالی بازار کو راستہ جا تا ہے۔ نمک منڈی سے آنیوالے جہا نگیر پورہ بازار سے ہو کر آتے ہیں۔جہا نگیر پورہ بازار میں پشاوری چپل اور چترالی ٹو پی ساتھ ساتھ ملتے ہیں۔ میں 1971 میں چترالی بازار آیا تو حا جی عظیم‘ حا جی سعید اللہ‘حا جی ولی الدین‘حا جی نا در خان‘میر احمد بلبل کا طوطی بولتا تھا حا جی نا در خان کے بعد میر احمد بلبل نے چترالی بازار کی یو نین کی قیا دت بھی سنبھا لی۔ آزاد سرائے میں ان کا دفتر ہوا کر تا تھا جہاں کہنہ مشق صحا فی احسان طا لب، نو جواں ادیب یو نس قیا سی اور نو جواں صحا فی صلا ح الدین کیساتھ چترال کے صحا فی محمد افضل، جہا نگیر جگر، کرم الٰہی اور اختر تا جک کی نشستیں ہو تی تھیں۔میر احمد بلبل ہند کو پشور یوں کے لہجے میں بولتے تھے کوئی نہیں پہچانتا تھا کہ ہند کو میر احمد بلبل کی مادری زبان نہیں‘ چترالی بازارجو محبت اور بھا ئی چارے کی فضاء  1943میں ان کو ملی تھی وہ پیار بھر ی فضاء  2023ء میں بھی مو جو د ہے۔ جہاں تک اونی مصنو عات کا تعلق ہے اس سلسلے میں جہاں دیدہ کا ریگراور تا جر کہتے ہیں کہ پہلے چترالی کھڈی کی خا لص دستی اونی پٹی کے سوا دوسرا خا م مال نہیں آتا تھا۔ رفتہ رفتہ دوسرا ما ل آنے لگا پہلے درآمدی مال آتا تھا وہ خا لص اونی پٹی سے سستا ہو تا تھا اس کی ٹو پی بھی سستی ہو تی تھی واسکٹ بھی سستا ہو تا تھا۔پھر سوات سے کا رخا نے میں بنی ہوئی اونی پٹی آنے لگی اس کے بعد لا ہور سے کا رخا نے کی اونی پٹی آئی۔کا رخا نے کی پٹی درآمدی ما ل سے بھی سستی آتی ہے اور ما ل بھی ہلکا ہو تا ہے گا ہک اس کو پسند کر تا ہے۔ اب صورت حا ل یہ ہے کہ چترالی بازار میں معیار اور قیمت کے اعتبار سے رنگ رنگ اور قسم قسم کی مصنو عات ملتی ہیں یہاں وی آئی پی مہما نوں، سفارت کاروں اور حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے لئے خا لص اون سے دستی کھڈی پر تیار کی ہوئی پٹی کے واسکٹ، چُغے اور پٹیاں بھی ملتی ہیں۔ سفید پوش گا ہکوں کے لئے کا رخا نوں کی اونی پٹی سے بنی ہوئی ملبو سات بھی ملتی ہیں العرض چترالی بازار پشاور میں چھوٹا چترال ہے۔