کیا گل کھلے گا دیکھئے ہے فصلِ گل تو دور۔ اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم“۔بہار کی اطلاعات ہیں ہوا اس کی ایڈوانس خبر لا رہی ہے ہوا کپڑے اڑا ہی ہے دھول اڑا رہی ہے اور ساتھ افواہیں بھی اسی کے دوش پر اڑتی چلی جاتی ہیں فروری کے درمیان ہی میں بہار کے آثار شروع ہو چکے ہیں پھر ماہِ رواں گزرا تو گرمی بھی فضا کو ٹیک اوور کر لے گی مگر لوگ ہیں کہ ابھی سے دیوانے ہوئے جاتے ہیں تھوڑے نہیں پورے کے پورے‘ کیونکہ سنا ہے کہ بہار کے موسم میں کچھ ایسے دل والے ہو تے ہیں جن پر دیوانگی کے دورے پڑتے ہیں جیسی دیوانگی چودھویں رات چاندنی میں طاری ہو تی ہے لیکن بہار کے آنے کا انتظار تو کرنا چاہئے اسی کیفیت کو اوپر شعر میں مومن خان مومن نے خوبصورتی سے بیان کیا پھرمیر تقی میرنے کہا ”کچھ کرو فکر مجھ دیوانے کی۔دھوم ہے پھر بہار آنے کی“ہر سال ہمارے پشاور میں بھی حکومت حرکت میں آتی ہے۔ دیکھیں اب کے وہ کیا کرتے ہیں کیونکہ ایک طرف پتنگ بازی ایک صنعت کا روپ دھار چکی ہے اسکے ساتھ لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اگر ان کے لئے کچھ شرائط پر اس کاروبار کو جاری رہنے دیا جائے تو شاید اس میں کوئی بہتری آئے پتنگ بازی ہو یا کوئی بھی بازی ہر بازی اپنی جگہ بری ہے لیکن اگر پتنگ بازی کی صنعت سے وابستہ لوگ کسی قانون کے پابند ہوتے یا کسی اصول یا ضابطہ کو مانتے تو ان کو بھی چھوٹ حاصل تھی مگر چونکہ ہر طبقہ میں کالی بھیڑیں موجود ہو تی ہیں اس لئے ان میں بھی کچھ لوگ ہیں جو اپنے بھائی بندوں کو بدنام کر رہے ہیں جن کی وجہ سے ان لوگوں کاکاروبار بھی تباہ ہورہاہے جو اصول سے ہٹ کر پتنگیں نہیں بیچنا چاہتے۔ لوہے کی تار استعمال کی جاتی ہے جو اگر گلیوں کوچوں میں گزری ہوئی بجلی کی ننگی تاروں سے ٹکرا ئے تو تارکو پکڑے ہوئے بندہ موت کی وادی میں چلا جاتا ہے چونکہ پتنگ بازی کرنیوالو ں میں ننانوے فیصد بچے ہوتے ہیں جو ناسمجھ ہیں لہٰذا اس کے نقصانات سے متاثر ہو جاتے ہیں پھر سڑک پر جاتے بے گناہ شہری بھی ان لوہے کی ڈوروں سے ٹکرا کر اپنا گلہ کٹوا بیٹھتے ہیں کئی بچے جو موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بیٹھتے ہیں وہ بھی گلے پر ڈور پھر جانے سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ پھر یہ واقعات پے در پے ہوئے ہیں اور پشاور کے علاوہ پنجاب میں تو کافی سے زیادہ بچے اموات کا شکار ہو چکے ہیں ہمارے ہاں کا انفرا سٹرکچر کون سا اچھا اور معیاری ہے ہمارے ہاں تو ہر گلی کوچے میں اول تو ہائی پاور کی تاریں ننگی لوٹ رہی ہیں پھراگر گھریلو تاریں ہیں تو وہ بھی جگہ جگہ سے چھیلی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے اگر ا ن کے ساتھ لوہے کی ڈور ٹکرائی تو پتنگ باز سجنا کا موت کے منہ میں چلا جانا کوئی مشکل نہیں جب تک شہری کا ضمیر نہ جاگے خواہ وہ شہری پتنگ بیچنے والا ہو یا خریدنے والا اس وباء پر قابو پانا بہت مشکل ہے کیونکہ ہم خو د اس پر پابندی لگا تے اور اس کی مخالفت کرتے ہیں مگر خود ہی اس پابندی سے انحراف اور بغاوت کرتے ہیں اب بہار دور ہے مگر پتنگیں اُڑنا شروع ہو گئی ہیں بازاروں اور مصروف سڑکوں پر پتنگوں کا کٹ کر گرنا بھی عام سی بات ہے مگر یہ بھی عام سی با ت ہی ہے کہ اس کو لوٹنے والے بچے نہیں بڑے بھی ہو تے ہیں۔ پتنگ لوٹنے والے کو اپنے ارد گرد کا ہوش نہیں ہوتا کہ پاس سے گاڑی گزر رہی ہے کہ بس۔وہ تو بس پتنگ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بس۔ انھیں اور کچھ نہیں سوجھتاوہ تو جھلے ہوکر کٹی ہوئی پتنگ کے سر ہو جاتے ہیں اسے حاصل کر کے ہی چھوڑتے ہیں۔کسی بھی مسئلے کا حل اگر نیک نیتی سے ڈھونڈا جائے تو ضرور مل جاتا ہے تاہم جس طرح ہم مسائل کو ایک طرف ڈھیر کرتے جاتے ہیں اس سے وہ وقت گزرنے کے ساتھ مزید گھمبیر بن جاتے ہیں اور پھر مشکل سے ہی ان مشکلات اور مسائل سے جان چھوٹتی ہے پتنگ بازی اور اس سے وابستہ نقصانات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ پشاور کے خوبصورت لب ولہجے کے شاعر خدا ان کا مرتبہ مزید بلند کرے سجاد بابر کا شعر ہے ”وہ لمس ڈور کی صورت بدن سے لپٹا رہا۔ پتنگ لوٹ کے لائے مگر اُڑا نہ سکے“۔