زراعت کا شعبہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور اِس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ زرعی شعبہ خاطرخواہ حکومتی توجہ سے محروم ہے جبکہ ملک کو درپیش معاشی بحران اور قرضوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات کے لئے زرعی انقلاب کے بغیر دوسری کوئی قابل عمل حل نہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ 1990ء کی دہائی کے بعد سے زرعی پیداوار میں خاطرخواہ بڑھوتری (تبدیلی) نہیں آئی ہے اور آج بھی فی ایکڑ پیداوار سے لیکر فی مزدور محنت کا تناسب تین دہائیوں پُرانا ہی ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1991ء سے 2019ء کے درمیان پاکستان کی زرعی پیداوار میں مجموعی طور پر 0.7 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اِس بیس سالہ عرصے کے دوران ہر سال تین فیصد سے زائد آبادی میں اضافہ ہوا ہے! فی ایکڑ زرعی پیداوار میں کمی کا ایک سبب اگر موسمیاتی تبدیلیاں ہیں تو دوسری طرف اِس شعبے کی خراب کارکردگی کا زیادہ تر عمل دخل اِس بات پر ہے کہ زرعی شعبے کے لئے نہ تو حکومتی مراعات میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوا‘ اور نہ ہی اِس شعبے کی خراب کارکردگی سے قوم کی نیندیں حرام ہوئیں! جہاں تک موسمیاتی تبدیلیوں کا زرعی شعبے پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کا تعلق ہے تو ایسا صرف پاکستان ہی کے ساتھ کیوں ہے جبکہ مذکورہ عرصے میں جنوبی ایشیائی خطے کے دیگر ممالک کی سالانہ زرعی پیداوار میں 2.8 فیصد یعنی چار گنا اضافہ دیکھا گیا ہے! ورلڈ بینک کی رپورٹ میں ایشیائی خطے کی چار اہم فصلوں (کپاس‘ گنے‘ گندم اور چاول) کے اعدادوشمار جمع کئے گئے ہیں جبکہ دیگر زرعی اجناس کی پیداوار بھی یکساں متاثر ہے۔ عالمی تجزیاتی رپورٹوں میں اِس بات پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں زراعت کی بحالی اور امداد کے نام جو اخراجات کئے جاتے ہیں اُن سے بڑے زمیندار فائدہ اُٹھا لے جاتے ہیں جیسا کہ حکومت گندم کی امدادی قیمت (سپورٹ پرائس) مقرر کرتی ہے تاکہ کاشتکاروں کو فائدہ پہنچایا جائے لیکن اِس سپورٹ پرائس سے بڑے زمیندار اِس لحاظ سے زیادہ فائدہ اُٹھا لیتے ہیں کہ یہ سپورٹ پرائس گندم کی ’درآمدی قیمت‘ سے زیادہ ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بڑے کاشتکار گندم کی سبسڈی کے ذریعہ اضافی منافع کماتے ہیں جبکہ چھوٹا کاشتکار اپنی ضرورت سے بمشکل بچ جانے والی گندم پر سارا سال گزارہ کرتا ہے اور وہ اِس قابل ہی نہیں ہوتا کہ اپنی گندم فروخت کر سکے۔ اِسی طرح زرعی قرضوں کا بڑا حصہ بھی بڑے کاشتکاروں ہی کی جیب میں جاتا ہے اور یہ بااثر کاشتکار مختلف وجوہات جن میں موسمیاتی اثرات شامل ہیں کو بنیاد بنا کر اپنے زرعی قرضہ جات معاف بھی کروا لیتے ہیں۔ عالمی بینک کی رپورٹ میں پاکستان میں گنے کی فصل کا ذکر کرتے ہوئے حیرت کا اظہار بھی ملتا ہے۔ عالمی بینک کا کہنا ہے پاکستان کے پاس پانی کی کمی ہے لیکن اِس کے باوجود ایسی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں جن کے لئے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بااثر خاندان شوگر ملوں کے مالک ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کے لئے پاکستان کی نقدآور فصل (کپاس) کی جگہ بھی گنے کی کاشت کرواتے ہیں۔ زرعی شعبے سے متعلق نظام میں چھوٹے محنت کشوں اور کاشتکاروں کی حق تلفی کا ازالہ کئے بغیر زرعی انقلاب عملاً ممکن نہیں ہوگا جس میں پاکستان کے جملہ معاشی مسائل کا پائیدار حل کی کلید و نوید پنہاں ہے۔زرعی اصلاحات میں ’آبپاشی‘ کے وسائل کی ترقی اور اِن کے مؤثر استفادے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی تقریبا ً80فیصد زراعت کا انحصار دریائے سندھ کے پانی پر ہے لیکن اِس دریا میں پانی کا بہاؤ آلودگیوں اور تجاوزات کی زد میں ہے۔ صنعتوں سے خارج ہونے والا کیمیائی فضلے دریائے سندھ کی آلودگی کا بڑا سبب ہے‘ جس کی وجہ سے آبپاشی کے لئے آلودہ پانی کے استعمال سے حاصل ہونے والی فصلیں مضر صحت عوامل (بیماریوں) کا باعث بن رہی ہیں اور زمین کی زرخیزی الگ سے انحطاط کی صورت متاثر ہے۔ دریائے سندھ کے پانی کی آلودگی سے سمندری جانداروں کی حیات بھی خطرے سے دوچار ہے۔ ملک کے بہت سے حصوں میں پہلے ہی پانی کی شدید قلت کی اطلاع ہے‘ جس کے مستقبل قریب میں مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے لہٰذا محکمہ زراعت کو پانی کو آلودہ کرنے والے محرکات (بدانتظامی) کا قلع قمع کرنے کے لئے آبپاشی کے متبادل طریقوں جیسے ریسپانسیو ڈرپ‘ انڈر گراؤنڈ ڈرپ‘ ببلر ایگری گیشن سسٹم اور دیگر سائنسی طریقوں کا سہارا لینا چاہئے۔ اِس کے علاوہ صنعتوں اور فیکٹریوں کو سختی سے ہدایت کی جائے کہ وہ آبی ذخائر میں کیمیائی اور پلاسٹک کے فضلے کو ٹھکانے لگانے سے گریز کریں اور قواعد کی خلاف ورزی پر بلاامتیاز و مصلحت جرمانے عائد کئے جائیں۔ حکومت کو پانی کا ضیاع روکنے کے لئے بھی آگاہی مہم چلانی چاہئے جبکہ خوراک اور پانی کی بڑھتی ہوئی قلت روکنے کے لئے آبی ذخائر کی حفاظت اور توسیع ایک ایسی ضرورت ہے‘ جسے پورا کئے بغیر زرعی ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہو سکیں گے۔