اہم ملکی اور بین الاقوامی امور کا جائزہ

 آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر  اور وفاقی وزیر توانائی کے سبسڈیز کے بارے میں 21 فروری 2023 کے  اخبارات میں چھپنے والے بیانات کو  اگر غور سے پڑھا جائے تو بین السطور دونوں نے ایک ہی قسم کی بات کی ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کے امیروں سے ٹیکس لے ان کو سبسڈی نہ دے جس پر صرف غریبوں کا حق بنتا ہے۔ وزیر توانائی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اب غریب آدمی کا گیس کا بل اور ہوگا اور امیر کا اور، پر کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہمارے ارباب بست و کشاد جن میں ایوان اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کے افراد شامل ہیں اس حوالے سے پہلے سوچتے اور اس ضمن میں عملی اقدامات کے ذریعے ثابت کردیتے کہ وہ حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندگی کررہے ہیں۔ ایسا کر کے وہ یقینا ایک بہت بڑی قومی خدمت سر انجام دے  سکتے ہیں۔ان ابتدائی کلمات کے بعد ذکر کرتے ہیں چند  دوسرے اہم عالمی اور قومی معاملات کا۔ شام کے عوام ابھی حالیہ زلزلے سے ہونے والے صدمات سہہ ہی  رہے تھے کہ اسرائیل نے ان پر گولان کی پہاڑیوں سے بم بر سا کر 15 افراد کو شہید اور15 کو زخمی کر دیا۔ اقوامِ متحدہ سے کوئی کیا گلہ کرے۔اسلامی کانفرنس تنظیم بھی مذمتی قرار داد منظور کرکے خاموش ہوجاتی ہے۔ سچ تو  یہ ہے کہ اگر اس مشن کو اگر آ گے بڑھایا گیا ہوتا جس کی داغ بیل1974 میں لاہور میں عالم اسلام کے سربراہوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر ذوالفقار علی بھٹو نے ڈالی تھی تو آج دنیا کے مسلمان ممالک  مسائل اور مشکلات سے دوچار نہ ہوتے۔اب تذکرہ ہو جائے  جنوبی افریقہ، روس اور چین کی مشترکہ فوجی مشقوں کا۔امریکی تحفظات اوریوکرین کی مذمت کے باوجود جنوبی افریقہ، روس اورچین کی مشترکہ بحری مشقیں جنوبی افریقہ کے مشرقی ساحل کے قریب شروع ہو  گئی ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ دس روزہ فوجی مشقوں سے جنوبی افریقہ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ یوکرین پراس کے جاری حملے کا ایک سال مکمل ہونے پر ماسکو کے لئے اپنے پروپیگنڈے کو فروغ دینے کا مقصد پورا ہو گا۔دوسری طرف مغربی ممالک روس کے حملے کو روکنے میں مدد کے لئے یوکرین کو اپنے ہتھیاروں کی ترسیل میں اضافہ کر رہے ہیں۔روس کا بحری بیڑہ یڈمرل گورشکوف جواس ہفتے کیپ ٹان پہنچا تھا، اس پرروس کی جنگی حالت کی علامت حرف'Z والے پرچم لہرا رہے تھے۔ جنوبی افریقہ میں یوکرین کی سفیرلیوبوف ابراویٹووا نے  میڈیا کو بتایا کہ وہ مشقوں کی مذمت کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت پریشان کن ہے کہ جنوبی افریقہ اس ملک کے ساتھ فوجی مشق کی میزبانی کررہا ہے جو جارح اور حملہ آورہے۔ روس اپنی فوجی طاقت ایک پرامن ملک کے خلاف استعمال کر رہا ہے، وہاں تباہی پھیلا رہا ہے اوریوکرینی قوم کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔جنوبی افریقہ نے بار ہا یوکرین کے تنازعے پر اپنے غیرجانبدارانہ موقف اورروس کے ساتھ تعلقات کے اپنے حق کا دفاع کیا ہے، جو برازیل، بھارت اور چین کے ساتھ برکس تجارتی بلاک کا ساتھی رکن ہے۔جنوبی افریقہ کی وزیرِخارجہ نیلیڈی پانڈور نے گزشتہ ماہ اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاو روف کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ پریٹوریا فریقین کے زبردستی انتخاب کے دباؤ میں نہیں آئے گا۔واضح رہے کہ گورشکوف ہائپرسونک زرکون میزائلوں سے لیس ہے، جسے روسی سرکاری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مشقوں کے دوران تربیتی لانچ سے فائر کیا جا سکتا ہے۔جنوبی افریقہ کے حکام نے اس بات کی تردید کی ہے کہ میزائل لانچ دس روزہ مشقوں کا حصہ ہو گا، جس میں چین کی بحریہ بھی شامل ہے۔جنوبی افریقہ کے محکمہ دفاع نے کہا کہ یہ روس کے ساتھ پہلی جنگی مشق نہیں ہے اوراس سے قبل اس نے اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ بھی فوجی مشقوں میں حصہ لیا تھا۔جنوبی افریقہ کے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز میں روس کے ماہراسٹیون گرزڈ کا کہنا ہے کہ پریٹوریا دونوں اطراف کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔گرزڈ نے کہا،جنوبی افریقہ ایک ایسا مستقبل دیکھ رہا ہے جس میں روس اورچین دونوں بہت اہم شراکت دار ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ اب بھی مغربی ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ لا حاصل کوشش ہے، امریکہ یقینی طور پراس بات سے بالکل خوش نہیں ہوگا کہ جنوبی افریقہ ان مشقوں میں حصہ لے رہا ہے۔ دوسری طرف امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس نے انہیں تشویش کے ساتھ نوٹ کیا جب کہ ماسکو یوکرین پر اپنا وحشیانہ اورغیرقانونی حملہ جاری رکھے ہوئے ہے۔یہ تو امریکہ کا موقف ہے  دیکھا جائے تو روس اور چین نے ہر طرف سے امریکہ کو جواب ینے کی تیاری کررکھی ہے اور یورپ سے لے کر ایشیاء اور افریقہ تک اب چین اور روس نے مشترکہ مفادات کے تحفظ کیلئے متفقہ لائحہ عمل تشکیل دیا ہے، ماضی میں چین اور روس دونوں اگر چہ ایک نظرئیے سے جڑے ہوئے تھے تاہم وہ ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ اب چین اور روس دونوں سمجھ گئے ہیں کہ امریکہ کی سازشوں کو تب ہی ناکام بنایا جا سکتا ہے جب روس اورچین دونوں مل کر عالمی توازن کو قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔