حسن تنوع

مشہور معالج اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر حفیظ اللہ خانہ کعبہ میں بیتے لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”کسی کی کہنی کے ہلکے سے اشارے نے مجھے اپنی سوچ کی لہر سے باہر نکالا‘ مڑ کر دیکھا تو چھ فٹ طویل قامت کا خوبصورت نوجوان گلابی رنگ کے افریقی لباس میں ملبوس کھڑا تھا مجھے دیکھ کر خیر سگالی کے طورپر مسکرادیا‘ اس قسم کے ہلکے سے جھٹکے انسانوں کے ہجوم میں عموماً لگتے ہی ہیں اور خانہ کعبہ میں ایسے واقعات معمول کا حصہ ہیں جہاں انسانوں کا ایک سمندر ہوتاہے یہ واحد مقام ہے جہاں انسان وقت‘ موسمی حالات اور زندگی کی پریشانیوں سے لاتعلق ہوتا ہے یہاں آنے والے دنیا و مافیہا سے بے خبر اور صرف خدا تعالیٰ کے عشق سے سرشار ہوتے ہیں انہیں اگر کسی چیز کی فکر ہے تو اپنی روح کو پاکیزہ کرنے اور اپنی عمر بھرکے خوابوں کو تعبیر کا جامہ پہنانے کی ہوتی ہے مطاف انسانوں سے ہمیشہ بھرا رہتا ہے جس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا جا سکتا‘ یہاں ہر عمر کے لوگ موجود ہوتے ہیں تاہم اکثریت درمیانی عمر کے لوگوں کی ہوتی ہے سب کے سب ذکر الٰہی میں مست ہوتے ہیں اور طواف کے دوران ان کے ہونٹوں پر حمدوثناء جاری رہتی ہے یہاں چھوٹے بچے بھی اپنے والدین کے کندھوں پر سوار نظر آتے ہیں جو اس منظرنامے کی حقیقت سے ناآشنا ہوتے ہیں یہاں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے گروپ بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو سب سے آگے بڑھنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں وہ غالباً مقامی ہوتے ہیں یہاں کے ماحول سے خوب واقف ہوتے ہیں اور اس روح پرور سماں سے لطف اٹھاتے ہیں یہاں عمر رسیدہ لوگ بھی ہیں جن کو چلنے میں مشکل پیش آتی ہے مگر انکے جذبے جواں ہیں اور وہ عام لوگوں کے قدم سے قدم ملا کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور کمال حوصلے سے آگے بڑھتے رہتے ہیں لوگوں کے اس سمندر میں انتہائی ضعیف اور کمزور لوگ بھی نظر آتے ہیں جو عصا کے سہارے چلتے ہیں جن کی کمر خمیدہ ہوتی ہے تاہم ان کے چہرے بے پایاں خوشی کے جذبات  سے دمکتے ہیں یہاں آنے والوں میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ شامل ہیں کچھ لوگ احرام باندھے ہوتے ہیں جو باہر سے آئے ہوئے ہیں اور عمرہ کی سعادت حاصل کر رہے ہوتے ہیں کچھ لوگ جن میں بچے بھی شامل ہیں وہ یہاں پہنچ کر زیارت کیلئے احرام زیب تن کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو  ہوائی جہاز یا زمینی راستے سے سفر کرکے یہاں پہنچتے ہیں اور حرم کے اس سحر انگیز منظر میں کھو جاتے ہیں طویل سفر کرکے آنے والوں کے چہروں پر تھکاوٹ کے آثار بالکل نظر نہیں آتے اور وہ ہشاش بشاش دکھائی دیتے ہیں کیونکہ حرم کعبہ آمد انکے لئے عمر بھر کے خواب کی خوبصورت تعبیر ہوتی ہے اور اس تعبیر کو پانے کی خوشی ان کے ظاہر  تاثرات سے نمایاں دکھائی دیتی ہے ان کے ہونٹ خشک اور آنکھیں نم ہوتی ہیں اور زبان پر ذکر اور دعائیں جا ری رہتی ہیں‘ زائرین حرم میں سے بہت سے لوگ مقامی لباس جبہ میں ملبوس ہوتے ہیں ان میں سے کچھ لوگ سعودی عرب کے مقامی باشندے ہیں کچھ لوگ مختلف عرب ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ برصغیر اور دوسرے ممالک سے آئے ہوئے زائرین ہوتے ہیں کچھ افریقی نسل کے لوگ ہیں جو اپنی رنگت اور لباس میں پہچانے جاتے ہیں یہ روایتی افریقی لباس اور ٹوپی پہنتے ہیں اس طرح یہاں کا مجمع مختلف النسل  لوگوں کا خوبصورت گلدستہ لگتا ہے پاکستانی زائرین کی اکثریت نے مختلف رنگوں کی شلوار قمیض پہنی ہوتی ہے اور کچھ لوگ شلوار قمیض کے ساتھ واسکٹ بھی پہنتے ہیں کچھ لوگ ٹائی کے ساتھ سوٹ پہنے ہوتے ہیں اور کچھ نوجوان جینز پینٹ اور ٹی شرٹ میں بھی ملبوس دکھائی دیتے ہیں کچھ لوگ کپڑوں کو استری کرکے بن ٹھن کر یہاں آتے ہیں اور کچھ رکھ رکھاؤ سے بے نیاز عمومی لباس میں ہوتے ہیں اگرچہ لباس سب کا مختلف ہوتا ہے مگر دل سب کے ایک جیسے دھڑکتے اور زبان پر سب کی ایک ہی فریاد ہوتی ہے۔ سب کے سب کعبے کوچومنے کیلئے بے تاب ہوتے ہیں جیسے شہد کی مکھیاں پھولوں کے گرد منڈلاتی ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی اور رب کریم کی خوشنودی اور قربت حاصل کرنے کے متمنی ہوتے ہیں۔“ اس منتخب تحریر کاحاصل مطالعہ خانہ کعبے کی مرکزی حیثیت ہے جہاں دنیا بھر سے مسلمان دینی فریضے کی انجام دہی کیلئے حاضر ہوتے ہیں اور یوں یہ دنیا بھرکے مسلمانوں کیلئے رابطے کاایک نادر اور انمول موقع بھی ہوتاہے جس سے آپس میں قربت کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے اور پوری امت مسلمہ کے ایک جسم ہونے کا عملی نمونہ یہاں پر دیکھنے کو ملتا ہے۔