ماحولیاتی آلودگی ہے کیا

اس کا بہت رونا رویا جاتا ہے۔مگر اس کے بارے میں عام آدمی کو معلومات نہ ہونے کے برابرہیں۔ میں نے بہانہ بنا کر کچھ لوگوں سے سوال کیا مگر حیران کن حد تک وہ اس کی الف ب سے توکیا واقف نہیں ہوں گے۔ وہ تو اتنا نہیں جانتے تھے کہ ماحولیاتی آلودگی کے یہ جو الفاظ ہیں ان ہی کا مطلب کیا ہے۔یعنی ماحول کا کیا مطلب ہے اور پھر آلودگی کسے کہتے ہیں ان کی بلا کو بھی پروا نہ تھی۔آج کل اس پر بہت سے سرکاری اجلاس ہو رہے ہیں مگر نتیجہ صفر سے تھوڑا سا اوپر ہے۔سردیوں کی یخ ہواؤں کا چلن ہے اور کمرے میں سوئی گیس کا چولھا لے کر گئے ہیں۔ اندر گھر والے بیٹھے ہیں۔ساتھ ہنڈیا بھی آگ پر دھری ہے۔گاہے چائے پکا لی جاتی ہے اور کبھی کھانے کے وقت روٹی گرم کر لی جاتی ہے کیونکہ گھنٹہ بھر کے بعد روٹی جو گتے کی سی ہو جاتی ہے۔کمرہ بھی گرم اور سردی ختم۔ اس پر ضرورت کا کھانا پکانا ہو رہا ہے۔اس وقت تو اندر دال مسور پکائی جا رہی تھی۔ اس کے لئے پلیٹ میں سبز مرچیں الگ سے کاٹ کر رکھی گئی تھیں۔تھوم الگ سے چھوٹی چھوٹی کاشیں بنا کر ایک پیالے میں آگ پر جلا کر رکھا گیا تھا۔ابھی تھوم مرچ کا تڑکا لگایا جانا تھا۔ کمرے کی تازہ ہوا تو گئی غارت ہو ئی اور اس پر یہ فالتو کی ہوابندی دال مسور کو گھی کا تار دینے سے پیدا ہوگئی ہے۔سو جب میں نے کمرہ کا دروازہ کھولا اندر داخل ہوا۔ منہ بھر کے وہ
 کھانسی کا دورہ آیا کہ میں جھٹ سے کمرے سے باہر آ نکلا۔مگر باہر بھی کھانستا رہا۔سوچ میں تھا کہ باہر تو نہ مرچوں کی دھانس ہے جو زبردستی ناک میں گھسی جاتی تھی اور نہ تھوم کی دھونی والی آب ہوا تھی۔پھر کمرے کی آکسیجن بھی تو دروازہ بند کر کے مار ڈالی گئی تھی۔مگر اندر کے لوگ کتنے خوش تھے کہ ہمیں سردی سے نجات ملی ہوئی ہے۔میں نے کمرے کے اندر اور باہر کے ماحول کا موازنہ کیا تو مجھے کمرے کے باہر کا ماحول یخ بستہ سہی مگر اچھا لگا دل کو فرحت محسوس ہوئی سانس بہتر طریقے سے آنے جانے لگی۔سردی میں کمرے کے اندر لحاف لے لینا بہت اچھا ہے۔ مگر چولھا جلانا اور اس پر مزے مزے کے پکوان تیار کرنا اور وہ کھڑکی دروازے بند کر کے پکانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ کمرے کے باہر تازگی ہے۔آکسیجن جس کی انسانی جسم کوزندہ رہنے کے لئے ضرورت ہے وافر مقدار میں موجود ہے۔گویا کمرے کی اندرونی فضا آلودہ ہو چکی تھی۔ اندر آکسیجن کے ساتھ اور گیسیں مکس اپ ہو چکی تھیں۔اندر مرچوں کی دھونی حلق کے زہر بن گئی تھی۔کمرے کی ہوا کا پانی سوکھ گیا تھا۔مطلب یہ ہوا کہ کسی خالص شئے میں کسی اور چیز کی ملاوٹ کرنا جو صحت کے لئے ناموزوں ہو۔اب ہمیں آکسیجن چاہئے نہ کہ چولھے سے نکلنے والا کاربن چاہئے۔کمرے میں ہوا کی نمی درکار ہے نہ کہ خشک ہوا جس کے ساتھ جسم پرنمکیات او رپسینے خشک ہو جانے سے خارش شروع ہو جاتی ہے۔اب ماحول کیا ہے اس کی طرف بھی آنا چاہئے۔ہمارے ارد گرد کو ماحول کہتے ہیں۔چاہے وہ کمرے میں ہو یا شہر میں ہو۔ یہی گیس اگر شہر میں گھر گھر جل رہی ہو اور دھوئیں اٹھ رہے ہو ں دھول دھبے مٹیا ں اور گرد وغبار ہو تو بیرونی ماحول بھی کمرے کے ماحول کی طرح آلودہ ہو جائے گا۔اب اگر شربت میں پانی ڈالیں تو بہت اچھا ہے مگر دودھ میں پانی ڈالا جائے تو آلودہ ہو جائے گا۔کیونکہ اس کا خالص پن خراب ہو جاتا ہے۔ اب اصل چیز خواہ کوئی بھی ہو اس کو خراب کرنے کے لئے اگر اس میں کسی دوسری شئے کی مکسنگ کی جائے تو آلودگی ہو گی۔عطر کی بوتل میں پانی کا ایک قطرہ بھی ڈال دو توآلودہ ہو جائے گا۔ اب شہر میں ہوا پانی خاموشی کم  آبادی دریا سمندر بجلی تاروں کا پوشیدہ ہونا یہ سب اصلیت ہے۔ان میں اگر
 رخنہ اندازی ہوتی ہے تو وہ آلودگی کہلائے گی۔ ہمارے ہاں ہر مقام پر بجلی کی ننگی تاریں اوپن ہیں یہ برقی آلودگی ہے۔ کیونکہ اس سے شعاعیں پھوٹتی ہیں جو موبائل ٹاوروں کی طرح صحت کے لئے خطرنا ک ہیں۔ جو آلودگی سب سے زیادہ خطرناک ہے وہ فضا ئی آلودگی ہے۔وہ کہ جہاں آکسیجن میں ملاوٹ ہو۔انسان کی خود کی سانس خراب ہو جاتی ہے۔خاموشی کو کس کس طرح روندا جاتا ہے اور اس طرح کس طرح شہری  کے اعصاب متاثر ہو تے ہیں۔وہ لڑنے بھڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ہارن بجانا اور ناجائز ہارن پریشر ہارن ڈھول تماشے شور شرابا ہوائی فائرنگ آواز کے نام پر کیسے خاموشی کو زیرِ پا کیا جاتا ہے۔ہمارے دریا اور سمندر گندے ہو رہے ہیں۔ انسانوں کا رش ان کو آلودہ کر رہاہے۔ہماری تازہ ہوائیں قاتل ہواؤں کا روپ دھار رہی ہیں۔یہ سب کچھ ہوگا تو ہم کہاں ہوں گے۔جی ہاں یہاں ہوں گے۔مگر بیمار جان ہوں گے۔”نیم بسمل کہیں ہوں گے کہیں بے جاں ہوں گے“۔سانس دمہ اور کینسر اور دیگر بیماریاں ہوں گی او رہم ہوں گے۔ہم خوب رجھ کر اپنے ماحول کو پامال کر رہے ہیں۔اس سے ہمیں ہاتھ کھینچا ہوگا ورنہ یہ چھری خود ہماری شہہ رگ پر چل جائے گی۔اسی لئے ہر لحاظ سے شہر سے دور گاؤں کی آب وہوا کم آلودہ ہوتی ہے۔