یادیں اور ملاقاتیں 

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
 گزشتہ دنوں فضا سوگوار رہی اور اس حوالے سے پے در پے سانحات کے سبب ہر شخص اُداس رہاادبی حلقوں میں بھی ایک اداسی چھائی رہی۔ہم بھی گھر سے کہیں نہ نکلے۔ ایسے میں عطاء الحق قاسمی صاحب کا فون آیا کہ فلیٹی ہوٹل میں عید ملن پارٹی ہے‘تشریف لائیں۔قاسمی صاحب کی محافل بڑی با رونق ہوا کرتی ہیں ہم ایسی تقریبات میں کم ہی شریک ہوتے ہیں‘پھر سوچا چلواسی بہانے سبھی احباب سے ملاقات ہو جائیگی ایک زمانہ تھا رمضان المبارک میں افطاریوں اور بعد میں عید ملن پارٹیوں کی بھرمار ہوتی تھی مگر وہ اچھے دنوں کی باتیں ہیں۔ اب توکوئی ایسی سڑک نہیں جو گھنٹوں بلاک نہ رہتی ہو پھر کوئی کسی دوسرے کو راستہ دینے کو تیار نہیں ہر شخص جلدی سے خود آگے بڑھنا چاہتا ہے  سو کسی نہ کسی مقام پر پہیہ جام ہو جاتا ہے۔اچھے دنوں میں سوشل میڈیا بھی نہیں تھا‘اس وقت نامور اہل قلم کی کہکشاں سے شہر دمکتا تھا۔ اے جی جوش مرحوم اپنے گھر پر یا کسی فائیو سٹار ہوٹل میں اہل قلم کو مدعو کر لیتے تھے‘فلیٹی میں کتابوں کی تعارفی تقاریب اکثر دیکھنے کو ملتیں‘مشاعرے بھی باقاعدگی سے منعقد ہوتے۔ ان محافل میں احمد ندیم قاسمی‘منیر نیازی‘قتیل شفائی‘احمد راہی‘ سیف الدین سیف‘شہزاد احمد‘عقیل روبی‘اظہر جاوید‘ حسن رضوی‘خالد احمد‘جیسے مرحومین لاہور کی ادبی محفلوں کی جان تھے۔ان تخلیق کاروں کو مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔یہ سب لوگ لاہور کی رونق تھے  پاک ٹی ہاؤس میں انتظار حسین‘سہیل احمد خان‘جاوید شاہین‘یونس ادیب‘سلیم شاہد‘ اسرار زیدی‘ناہید شاہد‘زاہد ڈاراور دیگر اہل قلم دکھائی دیتے۔ اور بھی کئی نام ہیں مگر ہم چیدہ چیدہ لکھاریوں کو یاد کر رہے ہیں۔کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ان  ملاقاتوں میں بڑی رونق ہوا کرتی تھی۔آج لاہور کے بیشتر موجودہ اہل قلم‘ پوش علاقوں میں شفٹ ہو چکے ہیں۔شہر کے ٹریفک نے بھی شاعروں ادیبوں کو محفلوں سے قدرے دور کر دیا ہے کئی اہل قلم ’ڈیفنس‘کو پیارے ہو چکے ہیں جن میں اصغر ندیم سید‘ مستنصرحسین تارڑ‘یونس جاوید‘یاسمین حمید‘بشریٰ اعجاز‘رخشندہ نوید‘سیما پیروزاور کئی دیگر  شامل ہیں پاک ٹی ہاؤس میں بھی پہلا سا دم خم نہیں ہے۔اسلئے اگر کبھی کوئی ایسی تقریب منعقد ہوتی ہے جہاں ممتاز اہل قلم مدعو ہوں تومسرت ہوتی ہے۔ لیکن اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اب کوئی ادبی تقریب منعقد نہیں ہوتی‘آج ادبی بیٹھک‘ باغ جناح‘ٹی ہاؤس‘ پلاک  اور ناصر باغ میں ادبی نشستیں برپا ہوتی ہیں مگر ان میں زیادہ تر نئی نسل کے اہل قلم تشریف لاتے ہیں‘شعری نشستوں  میں تیس چالیس شعرا موجود ہوتے ہیں سامعین کا کردار بھی وہی نبھاتے ہیں‘بیشتر اپنا کلام پڑھ کر رخصت ہوجاتے ہیں  بات ہو رہی تھی عطا ء الحق قاسمی کی میزبانی میں عید ملن پارٹی کی‘  جہاں ادیبوں کے علاوہ کئی کالم نگار اور نوجوان صحافی بھی مدعو تھے سیاستدانوں میں سے رانا ثنااللہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے یہاں موجود ہ سیاسی صورتحال سے لیکربین الاقوامی سیاست پر تبصرے اور کالم نگاروں کے چٹکلے بھی محفل کا حصہ تھے۔اس نشست میں بحرین سے آئے ہوئے نوجوان شاعر قمر ریاض خاص مہمان تھے مجیب الرحمن شامی‘اصغر ندیم سید‘حسین احمد شیرازی‘ڈاکٹر امجد پرویز‘خالد شریف‘ خالد غیاث‘گل نو خیز اختر‘ یاسر پیر زادہ‘ رؤف طاہر‘عباس تابش‘میجر جواد‘ سعداللہ شاہ‘ عزیر احمد‘مظہر کلیاراور کئی دیگر احباب موجود تھے۔ بعض کیساتھ تو ہمارا تعارف بھی نہ تھا تاہم قاسمی صاحب سب کو الگ الگ بھی وقت دے رہے تھے۔اس موقع پر چند احباب کو قمر ریاض کی تیار کردہ عطا الحق قاسمی کی تصویری سوانح عمری بھی پیش کی گئی۔بہت دنوں بعد یہ ایک غیر رسمی نشست تھی جس میں مختلف مکتبہ فکرکے تخلیق کار بھی شامل تھے۔تخلیق کاروں کا اس طرح مل بیٹھنا یقینا بہت آسودگی کا ذریعہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے تجربات اور مشاہدات سے استفادہ کرتے ہیں تاہم ایک بات خاص طور پر نوٹ کی گئی کہ اس تقریب میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔سیلفیاں‘تصاویر‘ ہائی ٹی اور گروپ فوٹوکے بعد تقریب اختتام پذیر ہوئی۔فلیٹی ہوٹل سے ہم باہر نکلے تو ابھی رم جھم جاری تھی۔الحمرا آرٹ کونسل مال روڈ کے سامنے ٹریفک اب بھی رینگ رہی تھی۔