امریکہ کو ا س بات کا قوی یقین ہے کہ اس نے اگر یوکرین میں روس کو شکست نہیں دی تو یہ اس کیلئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہو سکتا ہے۔ اسلئے تو امریکی صدر نے یوکرین کا اس حال میں دور ہ کیا کہ وہاں پر روسی حملے جاری ہیں۔ یہ کسی امریکی صدر کے لئے غیر معمولی تصور کیا جا رہا ہے۔ایک ایسے علاقے میں جانا جہاں جنگ جاری ہے اور مسلسل حملے ہو رہے ہیں، وائٹ ہاس حکام نے امریکی صدر جو بائیڈن کے اچانک یوکرین کے دارالحکومت کیئف کے دورے کو جدید دور میں بے مثال قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ عراق اور افغانستان میں دوران جنگ ماضی میں ہونے والے صدارتی دوروں کے دوران امریکی فوج کی بڑی تعداد وہاں موجود ہوتی تھی۔صدر بائیڈن کی پولینڈ میں موجودگی کے دوران پریس میں یہ چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ وہ یوکرین کا دورہ کر سکتے ہیں لیکن اس کے باجود ان کی یوکرین روانگی نے سب کو حیران کر دیا۔دارالحکومت کیئف کے مرکز میں فضائی حملے سے خبردار کرنے والے سائرن کی آواز میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ہمراہ امریکی صدر جو بائیڈن کی موجودگی پولینڈ میں کی جانے والی کسی تقریر سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔وائٹ ہاس کمیونیکیشن ڈائریکٹر کیٹ بیڈنگ فیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ پرخطر تھا اور کسی کے ذہن میں یہ شبہ نہیں رہنا چاہئے کہ جو بائیڈن ایک ایسے رہنما ہیں جو اپنے وعدے سنجیدگی سے نبھاتے ہیں۔طے شدہ شیڈول کے مطابق صدر بائیڈن نے پیر کے دن امریکہ سے دو روزہ دورے پر پولینڈ روانہ ہونا تھا۔اس شیڈول میں دو ایسے طویل اوقات تھے جن میں کوئی ملاقات طے نہیں تھی اور بہت سے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ کیا یہی وہ اوقات ہوں گے جن میں صدر بائیڈن یوکرین جا سکتے ہیں۔وائٹ ہاس میں روزانہ کی پریس بریفنگ کے دوران موجود رہنے والے صحافیوں نے متعدد بار یہ سوال اٹھایا لیکن ہمیں بتایا گیا کہ صدر زیلنسکی سے کوئی ملاقات طے نہیں اور فی الوقت وارسا سے باہر کوئی دورہ نہیں کیا جا رہا۔کیئف کے دورے کا حتمی فیصلہ چند گھنٹے کے نوٹس پر کیا گیا حالانکہ اس کی منصوبہ بندی کئی ماہ پہلے سے ہی ہو رہی تھی جس میں صدر کے انتہائی قریبی مشیر شامل تھے۔اتوار کو وائٹ ہاس کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق صدر نے سوموار کی شام کو وارسا کے لئے سفر کرنا تھا لیکن ایئر فورس ون، صدارتی طیارہ، اتوار کی صبح ہی اُڑ گیا۔طیارے میں جان بوجھ کر ایک مختصر ٹیم رکھی گئی جس میں صدر کے قریبی مشیر، ایک میڈیکل ٹیم اور سکیورٹی حکام موجود تھے۔صدر کے ساتھ صرف دو صحافیوں کو سفر کی اجازت دی گئی جن سے رازداری کا حلف لیا گیا اور ان کے موبائل فون بھی لے لئے گئے۔ان صحافیوں کو اس دورے کی خبر شائع کرنے کی اس وقت تک اجازت نہیں تھی جب تک صدر بائیڈن کیئف پہنچ نہ جائیں۔امریکی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جیک سلیون کے مطابق روس کو اس دورے کے بارے میں صدر بائیڈن کی روانگی سے چند گھنٹے قبل مطلع کر دیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے روس کو تنازع میں کمی لانے کے لیے اطلاع دی۔ میں اس تفصیل میں نہیں جاں گا کہ ان کا جواب کیا تھا یا ہم نے کیا پیغام دیا لیکن میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ ہم نے ان کو نوٹس دیا۔صدر بائیڈن نے یوکرین کے دارالحکومت تک سفر کے لئے ایک ٹرین پر 10گھنٹے گزارے۔ وہ یوکرین میں دیگر مقامات تک باآسانی پہنچ سکتے تھے تاہم وہ چاہتے تھے کہ کیئف کا دورہ کریں جس کی علامتی اہمیت ہوتی۔ایک جانب جہاں صدر کا دورہ ماسکو کے لیے ایک سگنل ہے کہ بائیڈن انتظامیہ یوکرین کی مدد کرنے میں سنجیدہ ہے، وہیں یہ ان کی جانب سے امریکی ووٹرز کے لیے بھی ایک پیغام ہے۔ان کی پریس سیکریٹری کیرین جین سے گذشتہ ہفتے سوال کیا گیا تھا کہ سروے کے مطابق امریکہ میں یوکرین کی حمایت میں کمی آ رہی ہے۔انھوں نے جواب دیا تھا کہ صدر بائیڈن جب بھی بات کرتے ہیں تو وہ دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ امریکی عوام سے بھی مخاطب ہوتے ہیں۔سوموار کا دورہ امریکہ میں حزب مخالف ریپبلکن کو بھی جواب دینے کی کوشش ہے جو سوال اٹھا رہے ہیں کہ امریکہ کب تک یوکرین کی حمایت جاری رکھ سکتا ہے۔تاہم صدر کے اس دورے نے میرے جیسے صحافیوں کو حیران کر دیا ہے جن کا خیال تھا کہ وہ ان کے ساتھ ایک ایسے طیارے پر سوموار کو پولینڈ جائیں گے جسے ایئر فورس ون نہیں کہا جائے گا۔اس طیارے کے لیے یہ نام اسی وقت استعمال کیا جاتا ہے جب امریکی صدر اس میں سوار ہوتے ہیں۔
امریکی صدر نے یوکرین کا خفیہ دورہ کرکے روس کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ یوکرین کی مد د میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ایسے علاقے کا دورہ کرنا کہ جہاں جنگ جاری ہو اور ہوائی حملے ہو رہے ہوں امریکی صدر کے لئے ایک بہت ہی کم دیکھنے میں آنے والا واقعہ ہے۔
اس وقت سرد جنگ ایک بار پھر عروج پر ہے اور یوکرین اس سرد جنگ کا گرم محاذ ہے جہاں ایک طرف امریکہ اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ موجود ہے تو دوسری طرف روس بھی تنہا نہیں اور ایسی اطلاعات موجود ہے کہ چین روس کو یوکرین جنگ میں فوجی امداد دینے کے لئے تیار ہے یہ اس امر کا اشارہ ہے کہ یوکرین کی لڑائی ختم ہونے کی بجائے مزید پھیلتی جا رہی ہے۔