جہاں جا کرآواز دیں گے صحرا میں دی جانے والی صدا ثابت ہوگی۔کوئی نہیں سنے گا ”صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا۔ سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم“۔پھر کہیں اگر کسی چار دیواری میں لبِ گویا ہوں تو اپنی ہی آواز باز گشت کے طور پر اپنے ہی پردہ ئ سماعت پر دستکیں دے گی مگر اس سے کوئی دروازہ نہیں کھلے گا۔اگر وا ہوا تو اپنے ہی دل کا در وا ہوگا۔مزید یاد کا موقع آئے گا۔مگر یاد ہے یاد تو آئے گی۔لوہے کے دروازوں میں سے ہوکر آئے گی۔دیواریں توڑ کر کُرلائے گی۔میں اس شہر کی یاد کا ذکر کرنے لگا ہوں جو ہم میں موجود تو ہے مگر اس کے باوجودگم ہے۔دکھائی تو دیتا ہے مگر اس کے درو دیوار اجنبیت کی داستان سناتے ہیں۔یہی دیوار و در تھے جو اپنے تھے۔ آدھ گھنٹہ پیدل چلنے پر اس شہر کے سولہ میں سے ایک دروازے سے نکل کر آخری کنارے کے دروازے تک پہنچ جاتے مگر اب کہاں۔اس شہر کو آواز دیں۔کوئی گم شدہ ہوجاتا ہے تو اس کی رپورٹ درج کرواتے ہیں۔مگر اس شہر کی ایف آئی آر گم شدہ شہر کی نہیں گم گشتہ شہر کی ہے۔اس کی رپٹ کہا ں درج کروائیں۔ پہلے تو کوئی درج نہیں کرے گا اوراگر راضی ہو جائے تو ہمارے کو دیوانگی کا پیکر جان کر ویسے ہی ہمارا دل رکھنے کو قلم چلا کر ہمیں چلتا کر دے گا۔ مگر اس شہر کو کوئی ڈھونڈ نہیں سکے گا
جو ہم لوگوں کے درمیان ہی کہیں پوشیدہ ہے۔وہ شامِ شہرِ یاراں اب تو خیال ہی میں سجتی ہے جو پہلے کہیں اس شہر میں حقیقت میں آراستہ و پیراستہ ہوتی تھی۔”وہ فراق اور وہ وصال کہاں“۔وہ شب و روز ماہ و سال کہا ں“۔”تھی جو اک شخص کے تصور سے“۔اب وہ رعنائی خیال کہاں“۔یہاں ایک شخص تو نہیں درجنوں تھے۔ جو اس شہر کا مان تھے وہ زیرِزمین چلے گئے۔ ”زیرِ زمیں سے آتا ہے جو گل سو سر بکف۔قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا“۔”سب نہیں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں۔ خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں“۔ ”وہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں۔ وہ جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں“۔وہ اس شہر کا حصہ تھے۔ ”رہیں وہ لوگ کہ جن سے جہاں کی رونق ہے“۔ہمارا کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے“۔ مگر وہ بھی تو نہ رہے جن سے اس شہرِ پشاور کی آبرو ترو تازہ تھی۔اب تو ان کامرقد ہی مل سکتا ہے۔جہا ں اگر ترو تازہ پھول ہوئے تو ہوئے وگرنہ تو وہ مزاربھی شہرِ خموشاں کی ویران ڈگریا کی زینت بن چکے ہیں۔ہم لوگ تو ان کا حق بھی ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔”قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا“۔شہر پشاور بہتوں کے سر کا نہیں ذہن کا درد ہے۔اس شہر کے ماضی کی داستان جو اب کے سینئر لوگوں کے ذہنوں کو ہمہ وقت کریدتی رہتی ہے۔ان کے دل کا درد بن چکی ہے۔ ایک ذہنی بیماری کا روپ دھار چکی ہے۔پشوری خواہ پشاور میں ہے یا اس شہر سے ہزاروں میل دور کی پرواز پر ہے ا س کی یاد سے بہرہ ور ہے۔وہ اگر افسانہ لکھے یا شعر کہے اس کے پسِ پردہ ذہن کے نہاں خانوں میں اس شہرِ سبزہ و گل اور رسوم و رواج کے اس شہر کی یاد ہر وقت چٹکیاں کاٹتی رہتی ہے۔وہ اول تو اس شہر کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے۔ مگر کہیں بھی چلے جائیں اس شہر کو دل میں بسائے رہتے ہیں۔تاریخی شہر ہے۔ایک گزر گاہ ہے جہاں سے کتنے ہی فاتح گزر کر آگے گئے تاریخی شہر کے گرد موٹی سی دیوار تان دی جاتی ہے۔جیسا کہ دوسرے تاریخی شہروں کے گرد ایک طویل زمانہ ہوا موجود ہے۔اس کے دروازوں کا اپنا حسن ہے۔ان دروازوں کے نام پر علاقے مشہور ہیں۔ وہ سب کہا ں گیا۔ وہ شہرچلا تو گیا مگر دلو ں میں ویسے کا ویسا موجودہے رائٹرز کے افسانے ناول ڈراموں شاعری میں پایا جاتا ہے۔پہلے اس شہر کے دروازوں کے باہر ویرانے ہو تے تھے۔ مگر اب تو ان دروازوں کے باہر بھی پشاور ہے۔دور تک جاتا ہوا پھیلتا ہوا۔اب تو یہاں کے رہائشیوں کی تعداد بھی حد سے زیادہ ہو چکی ہے۔وہ خاموشی جو پہلے تھی اور دکانیں ہوں یا بازار مگر پررونق تھے۔لیکن اس طرح بے ہنگم ٹریفک اور بے تحاشا آبادی کے مناظر سے خالی تھے۔جدت کی کچھ ایسی تلوار چلی ہے کہ پرانے آثارمٹنے لگے ہیں۔یہ کرب سجاد بابر مرحوم نے اپنے ایک خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے۔”تو بھی مٹتی ہوئی تہذیب کے نوحے لکھتا۔”شہر تیرا جو میرے یار پشاور ہوتا“۔ یہاں کی ایک بھاری بھرکم دیدہ زیب اور آنکھوں میں سجتی ہوئی دل میں اُترتی تہذیب و ثقافت تھی۔ جو اب اگر ناپید نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔اس کی واپسی تو ناممکن ہے۔ اسی لئے اس دکھ کو ہماری نسل کے لوگ دل میں بسائے رہتے ہیں۔کیونکہ اب تو وہ صورِت گری نہیں رہی۔”اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے۔ اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں“۔