فی الحال پاکستان میں ایندھن کی حقیقی قلت موجود نہیں اور وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں اُنتیس دن کی ضروریات کے لئے ڈیزل جبکہ اکیس دن کے لئے پٹرول ذخائر موجود ہیں لیکن یہ صورتحال مثالی نہیں ہے۔ آئل ریفائنریز اکثر اپنا کام روک دیتی ہیں اور حال ہی میں ’پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او)‘ کو تیل کی شپمنٹ کی منسوخی کا سامنا کرنا پڑا۔ اِن و دیگر تکنیکی مشکلات کی جڑ زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر ہیں جو حال ہی میں کم ہو کر تین سال کی کم ترین سطح یعنی ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہو گئے ہیں۔ اس سے عوام میں تشویش کا پیدا ہونا اور خدشات جائز ہیں کیونکہ پاکستان کو ماہانہ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کے لئے قریب تین ارب ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا ایندھن کی حالیہ قلت‘ چاہے وہ مصنوعی ہی کیوں نہ ہو لیکن اِسے ”انتباہ (وارننگ)“ کے طور لینا چاہئے۔ اِس پوری صورتحال میں ریگولیٹرز کو کردار کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے کہ آخر ہمارے ادارے کسی بحران کی ظہورپذیری کے منتظر کیوں رہتے ہیں اور اُسے بروقت روکنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کیوں نہیں کئے جاتے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تیل کمپنیوں کو مناسب اور بروقت تیل کی فراہمی یقینی بنانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی مہینوں سے ان کمپنیوں کو خام تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کے لئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) جاری نہیں کئے جا رہے۔ حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی روکنے کے لئے درآمدات پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن کا تمام صنعتوں بالخصوص پیٹرولیم سیکٹر پر گہرا اثر پڑا ہے تاہم پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی مالی امداد (قرض) کے معاہدے پر دستخط کرنے کے قریب ہے۔ جس سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں بہت مدد مل سکتی ہے کیونکہ مختلف ممالک کی امداد ’آئی ایم ایف‘ معاہدے پر منحصر ہے تاہم پالیسی سازوں کو ممکنہ بدترین صورت حال کے لئے محتاط اور تیار رہنا چاہئے بھلے ہی صورتحال میں بہتری آئے اور بحران کا امکان کم ہوجائے۔ حالات متقاضی ہیں کہ مشکل سوالات پوچھیں جائیں! جیسا کہ اگر ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی جاری رہی تو ایندھن کی فراہمی کا کیا ہوگا؟ ایل سی کھولنے پر مزید سخت پابندیوں کے تحت تیل کی صنعت کیسے کام کرے گی؟ اور ایک تباہ حال معاشی منظر نامے میں‘ اگر ملک دیوالیہ پن کا سامنا کرتا ہے تو پیٹرولیم کے شعبے پر اِس کے اثرات کیا ہوں گے؟ ایندھن کی قلت وسیع تر معیشت کو کس طرح متاثر کرے گی؟ ان سوالات کا محتاط جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مقامی آئل فیلڈز سے کم پیداوار کی وجہ سے پاکستان پیٹرول‘ ڈیزل اور دیگر ایندھن کی درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو پاکستان کے پاس پیٹرولیم مصنوعات کی مقامی طلب پورا کرنے کے لئے تیل کے وافر ذخائر موجود نہیں ہیں جبکہ ضرورت تیل و گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کی ہے جس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جانی چاہئے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ’او جی ڈی سی ایل‘ جیسی تیل کی تلاش اور پیداوار ی کمپنیاں اپنی تلاش کی صلاحیت اور تلاش کے جاری کاموں میں تیزی لائیں اور ملکی ذرائع سے پیٹرولیم پیداوار میں اضافہ کیا جائے جبکہ اِس میں کمی آرہی ہے۔ آئل ریفائنریوں کو فراہم کیا جانے والا مقامی تیل ایندھن کی طلب کا صرف بیس فیصد پورا کرتا ہے۔ سعودی عرب سے مؤخر تیل کی ادائیگی کی سہولت موجود ہے جس کے ذریعے ہر ماہ ایک سو ملین (دس کروڑ) ڈالر مالیت کا خام تیل خریدا جا سکتا ہے۔ یہ اقدام بیس فیصد طلب پورا کر سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ بدترین صورت حال میں پاکستان اپنی تیل کی ضروریات کا چالیس فیصد پورا کر سکتا ہے۔ رسد اور طلب کے درمیان اس اہم فرق کو کم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ توانائی کے تحفظ و سلامتی کے لئے خطرہ ہے جو براہ راست قومی سلامتی سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ ایک بڑے معاشی بحران کے اثرات سالوں تک برقرار رہتے ہیں اور معاشرے کے تمام طبقوں میں وسیع پیمانے پر محسوس کئے جاتے ہیں۔ مہنگائی (افراط زر) کی شرح ساڑھے ستائیس فیصد جیسی بلند سطح سے اگر مزید بڑھتی ہے تو اِس سے معیشت کی بحالی کے لئے اصلاحات اور بالخصوص پیداواری و کاروباری شعبہ شدید متاثر ہوگا۔ مینوفیکچرنگ‘ زراعت اور خدمات سمیت معیشت کے تمام شعبوں میں آمدنی میں کمی کے ساتھ کاروباری اداروں پر دباؤ زوال کا سبب بن سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملازمتوں میں کمی اور غربت کی سطح میں اضافہ ہوگا۔ فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ وہ بحرانی دور میں مقامی آئل ریفائنریز کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے لئے اقدامات کریں۔ اس میں سعودی عرب سے مؤخر تیل کی ادائیگی کی سہولت کو بڑھانا یا تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے ہونے چاہیئں تاکہ وافر مقدار میں تیل کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔