سانحات: ممکنہ بچاؤ

 ضروری نہیں سانحات ہمیشہ قدرتی آفات کی صورت میں رونما ہوں بلکہ ہر قدرتی و غیرقدرتی آفت کے پیچھے بھی انسانوں ہی کا عمل دخل پایا جاتا ہے اور اِسی وجہ سے ضروری ہوتا ہے کہ مرتبہ کسی سانحے اور حادثے کی ’رسمی مذمت‘ کر کے عوام کا غم و غصہ رفع دفع کرنے کی بجائے منصوبہ بندی اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تیاری کی جائے۔ یکساں ضروری یہ بھی ہے کہ امدادی سرگرمیاں شروع کرنے والے اداروں کی کارکردگی کا بھی احتساب کیا جائے کہ یہ عوام کی جان و مال کے یقینی تحفظ میں کس قدر معاون و مددگار ثابت ہو رہے ہیں اور ایک عام آدمی کی اِن امدادی اداروں کی کارکردگی کے بارے میں رائے (رائے عامہ) کیا ہے۔ حالیہ چند روز میں پیش آنے والے بدقسمت واقعات میں کوہاٹ میں چالیس طالب علموں کے ڈوب جانے کا حادثہ پیش آیا جو تانڈا ڈیم کی سیر کے لئے گئے تھے لیکن اُن کے تفریحی دن کا اختتام حادثے پر ہوا۔ کشتی الٹنے سے بچوں سمیت سکول (مدرسے) عملے سمیت اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔ تفتیش مکمل ہونے پر معلوم ہوا کہ ’کشتی میں گنجائش سے زیادہ افراد کو سوار کیا گیا تھا اور اِس اوور لوڈ کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔‘ زیادہ تر بچوں کی عمریں سات سے چودہ سال کے درمیان تھیں اور وہ تیرنا نہیں جانتے تھے۔ بچائے گئے بچوں میں سے ایک نے بتایا کہ جھیل کا پانی بہت ٹھنڈا تھا‘ جس کی وجہ سے اس کا جسم بے حس ہو گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سخت سردی کے موسم میں جھیل کی سیر کا پروگرام بنانا غلط فیصلہ تھا۔ جن بچوں کو تیراکی آتی تھی وہ بھی سرد پانی کی وجہ سے اپنی جان نہیں بچا سکے کیونکہ پانی انتہائی ٹھنڈا تھا جبکہ کشتی کے مسافروں کے پاس لائف جیکٹس بھی نہیں تھیں۔ اِس افسوسناک واقعے کے بعد امدادی کاروائیاں تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ سے بھی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور جب ریسکیو ٹیمیں جائے حادثہ پر تاخیر سے پہنچیں تب بھی اُن کے پاس غوطہ خوروں اور غوطہ خوری میں استعمال ہونے والے ضروری سازوسامان (آلات) کی کمی تھی! عینی شاہدین کے بیانات بھی تفتیشی رپورٹ کا حصہ ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ”بچے بنا لائف جیکٹ کشتی میں سوار ہوئے اور اُنہیں ایسا کرنے کے لئے روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔“ وقت ہے کہ پوچھا جائے کہ طلبا کو حفاظتی جیکٹوں کے بغیر کشتی پر سوار ہونے اور کشتی کو گنجائش سے زیادہ بھرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ بدقسمتی سے کوہاٹ میں پیش آنے والا یہ سانحہ ایسا پہلا کیس نہیں ہے۔ گزشتہ برس ایک ہی خاندان کے اٹھارہ افراد کو لے جانے والی کشتی الٹنے سے بھی اِسی نوعیت کا ناقابل تلافی جانی نقصان ہوا تھا جو واقعی حیران کن ہے کہ حکومت نے پچھلے بدقسمت واقعہ کے بعد سے خاطرخواہ کاروائی نہیں کی۔ اصولی اور مثالی طور پر سیاحت کے لئے الگ سے کشتیاں ہونی چاہئیں اور بنا حفاظتی انتظامات بچوں کو ایسے پرخطر سفر پر نہیں بھیجنا چاہئے۔ اِس کے علاوہ امدادی سرگرمیوں کے لئے کشتیوں کا بندوبست بھی ہونا چاہئے اور جب تک یہ انتظامات نہیں ہوتے ڈیم کے کھڑے اور گہرے پانیوں میں سیر کی اجازت نہ دی جائے۔ کوہاٹ حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی واپسی ممکن نہیں لیکن اِس حادثے کا ایک نتیجہ جس سنگین غفلت کی صورت سامنے آیا ہے اُس مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل میں اِس قسم کے حادثات کو یقینی طور پر رونما ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ ’ایمرجنسی رسپانس سسٹم‘ کو بہتر بنانا وقت کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے حادثات کی روک تھام کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں۔ کیا سیاحتی کشتیاں فٹنس چیک سے گزرتی ہیں؟ سیاحتی کشتیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار کرنے سے گریز کیوں نہیں کیا جاتا بالخصوص جب اِس میں بچے سوار ہوں تو کشتی میں زیادہ مسافر بٹھانے کے لئے ذمہ دار (قصور وار) کون ہوگا؟ کشتی رانی کے مقامات اور اوقات مقرر کرتے ہوئے غوطہ خور بھی مناسب تعداد میں تعینات ہونے چاہیئں تاکہ گھنٹوں ریسکیو ٹیموں کی آمد کا انتظار نہ کرنا پڑے اور کسی وجہ سے حادثے (کشتی اُلٹنے) کی صورت فوری امدادی کاروائی شروع کی جا سکے۔ اِسی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو بھی سیاحتی مقامات پر تعینات کیا جانا چاہئے تاکہ جھیل یا دیگر ہائی رسک مقامات پر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ جھیل اور دیگر ایسے گہرے پانیوں میں سیر و سیاحت کی سرگرمیوں پر اُس وقت تک پابندی عائد ہونی چاہئے جب تک جامع امدادی حکمت عملی تشکیل نہیں دی جاتی۔