ایسا بھی ہوسکتا ہے

ہم میں سے ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے ہر طرح کی مراعات حاصل ہوں تاہم جب ٹیکس دینے کی بات آتی ہے تو ہر کوئی اس سے بچنے کیلئے ہر حیلہ بہانہ آزماتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اگر حصہ بقدر جثہ ٹیکس پر ہو کوئی راضی ہو تو سارے کے سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ کہ جو جتنا کمائے گا اس قدر اس کے بدلے معاشرے کو لوٹائے گا کہ اسی معاشرے کی بدولت تو اسے کمانے کا موقع ملا ہے۔ تاہم یہاں پر صورتحال کچھ اور ہی ہے۔ جس کے پاس کم ہیں اس کی بات تو سمجھ آتی ہے تاہم جس کے پاس بہت کچھ ہے وہ بھی کچھ دینے سے کترا رہا ہے۔اب دیکھئے نا ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسروں سے ممتاز اور حسین نظر آئے تاہم اگر خوبصورتی پر ٹیکس لگ جائے تو لوگ اپنے چہرے ہی مسخ کر دیں گے۔ کیونکہ اگر خوبصورت ہیں تو خوبصورت نظر نہ آئیں۔وہ جو چاند جیسے روشن چہروں کے مالک ہوں گے ایک دوسرے کے چہروں کو نوچیں گے۔یہ خوبصورتی کا معاملہ شدت اختیار کر جائے گا۔ کیونکہ یہا ں تو ہر بندہ اپنے آپ کو خوبصورت سمجھتا ہے اور سب کے سب اپنے اثاثے چھپانے کی غرض سے اپنے ہی چہروں کو خودہی ناخنوں سے چھیل ڈالیں گے۔کیونکہ خوبصورت ہونا الزام بن جائے گا۔تم کیوں خوبصورت ہو اگر ہو تو ٹیکس دو گے ورنہ چھٹی کرو۔کسی کو یہ دعویٰ نہیں رہے گا کہ میں خوبصورت ہوں۔خوبصورتی کے معیار تباہ ہو جائیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے خوبصورتی کا تعین کرنے کو الگ کمیشن ہر گلی محلے کے باہر قائم ہوگا۔ٹیکس سے پہلے ہر کوئی جو کہتا تھامیں خوبصورت ہوں ٹیکس کے لاگو ہو جانے کے بعد جھوٹ بولنا شروع کر دے گا کہ میں خوبصورت نہیں ہوں۔ مگر ”حسن تو نہ رخسار کی ہے اور نہ تِل کی بات۔ یہ اک ذوقِ نظر ہے اور یا ہے دل کی بات“۔ اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ کون خوبصورت ہے اور کتنا خوبصورت ہے۔خوبصورت ہونے کا سوال الگ مگر کم یا زیادہ ہونے کا سوال الگ منہ چڑائے گا۔ جن کو خوبصورتی ملی ہے وہ اپنی خوبصورتی سے بیزار ہو جائیں گے۔سوچیں گے کاش میں خوبصورت نہ ہوتا کیونکہ یہاں تو چہرہ کی شادابی طعنہ بن چکی ہے۔ کمیٹیاں بیٹھیں گی خوبصورتی کی قانونی تشریح ہوگی کہ اس کامعیار کیا ہونا چاہئے۔خوبصورتی کہتے کسے ہیں۔مگر افسوس خوبصورتی کے تعین میں سب کے سب ایک دوجے سے متفق نہیں ہوں گے۔کوئی اپنی سی ہانکے گا اورکوئی جدا رائے دے گا۔پھر بیوٹی ٹیکس کامعاملہ کھٹائی میں پڑ جائے گا۔وہ نظم ”کبھی ہم بھی خوبصورت تھے“۔ کا ارمان کوئی نہیں کرے گا اور کہے گا ہم اگر خوبصورت تھے تو بس تھے۔ لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب خوبصورت نہیں ہیں۔ سنا ہے کہ کئی ترقی یافتہ ممالک میں سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں اور وہاں سے پیدل گزرنے والوں کے بوجھ سے سڑک بجلی پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو اس قدر ترقی ابھی نہیں ہوئی تاہم اگر یہ کیا جائے کہ ملکی معیشت کا پہیہ چلتے پھرتے رہنے کے لئے کہیں شہریوں کے قدم اٹھا کر چلنے پر ٹیکس لگا دیا جائے جو جتنے قدم لے گا اتنا ٹیکس دے گا۔اس سے بھی لوگ بچنے کیلئے طرح طرح کے طریقے ڈھونڈ نکالیں گے ہر کوئی بہ نفسِ نفیس ویل چیئر پر آ جائے گا۔بھلا چنگا بھی اپنے اثاثہ جات چھپانے کی غرض سے ویل چیئر پر گھومے گا۔ یوں شہر کا شہر ویل چیئر کی لالچ میں مہنگی چلت پھرت کرسیاں خریدیں گا۔ٹیکس دو گے تو رہو گے وگرنہ شہر بدر کر دیئے جاؤ گے۔ ایسے میں تو شہر کا شہر خالی ہو جائے گا۔شہرخالی کوچہ خالی۔کیونکہ ہمارے بھائی بند اپنے اثاثے شہر میں رکھیں گے اور خود شہر کے باہر ویران جھگیوں میں نئی بستیاں آباد کر لیں گے۔ اگر کہا جائے کہ جو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ٹیکس دے گا۔ پھر تو سارا شہر نابینا ہو جائے گا۔پھر نابینا شہر میں آئینہ لے کر گھومنا اکارت جائے گا۔ان میں سے اگر کوئی ایک آدمی بھی دیکھ سکتا ہو تو اس کو فراز کے اس شعر کی یاد ستائے گی”یہی کہا تھا میری آنکھ دیکھ سکتی ہے۔تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا“۔ پھر اپنے اثاثوں کو چھپائیں گے۔سارا شہر آنکھوں پرکالی عینک لگا کر گھومے گا۔چشمے بھی شارٹ ہو جائیں گے۔ ہوں گے تو مہنگے ہوں گے۔پھر عینک پر اضافی ٹیکس عائد کر دیا جائے گا۔