لوگ بغیر ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکلیں چلا رہے ہیں سڑکوں پران فٹ اور فٹنس سر ٹیفکیٹ کے بغیر گاڑیاں سڑکوں پردوڑ رہی ہیں‘اوور سپیڈنگ عام ہے‘مجال ہے کہ ٹریفک پولیس خواب خرگوش سے بیدار ہوتی ہو‘ ان وجوہات سے روزانہ وطن عزیز میں اتنے لوگ لقمہ اجل ہو رہے ہیں کہ جتنے کینسر یا امراض قلب سے نہیں مر رہے‘ بعض مسائل کا غیر روایتی طریقوں سے حل نکالنا ضروری ہوتا ہے یقین کیجیے اگر اس قانون پر عمل درآمد کر دیا جائے کہ اگر بغیر ہیلمٹ پہنے کوئی فردموٹر سائیکل چلاتے ہوئے پکڑاجائے یا اگر کوئی اٹھارہ برس سے کم عمر کا فرد ڈرائیونگ کرتے دھر لیا گیا تو نہ صرف یہ کہ اس کی موٹر سائیکل بحق سرکار ضبط ہو جائے گی اوراس کے والد یا گارڈین guardianکو بھی جیل کی ہواکھانا پڑے گی‘اس طرح کافی حد تک اصلاح احوال ممکن ہو جائے گی‘‘ٹریفک قواعد پر عمل درآمدیقینی بنا دیا جائے تو اطمینان رکھیں کہ کتنی ہی انسانی جان ضائع ہونے سے بچ سکتی ہیں اور ٹریفک کے
حادثات میں انقلابی کمی واقع ہو جائے گی‘آپ
کے مشاہدے میں ہو گا‘پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں چنگ چی رکشے اتنے عام ہو گئے ہیں کہ ہر طرف سڑکوں پر ان ہی کی بھر مار نظر آتی ہیلیکن دوسری طرف ان کے چلانے والوں پر نظر پڑتی ہے توافسوس ہوتا ہے کیوں کہ یہ نو عمر ڈرائیورٹریفک قواعد سے نا بلد ہوتے ہیں‘یہ وہ بچے ہیں جن کو کم سنی میں ہی محنت مزدوری پر لگا دیا جاتا ہے‘یہی وجہ ہے کہ آئے روز ان رکشوں کے حادثات کی خبریں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں آتی رہتی ہیں‘جن میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی تفصیل بھی ہوتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹریفک حکام اس طرف توجہ دیں اور ٹریفک حادثات پر قابو پانے کے لئے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کرائیں۔ اب آتے ہیں اہم قومی اور عالمی امورکی طرف‘ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہم معیشت ٹھیک چلائیں تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہ پڑے‘پاکستان کی معیشت بر آ مدات پر نہیں کھڑی ہے‘ اس لئے قرضوں سے کام چلایا جا رہا ہے‘کیا یہ حقیقت نہیں کہ ماضی میں پاکستان جب کبھی بھی آئی ایم ایف کے پاس جاتا تھا تو وہ بہت خوشحال تھا‘ جب تک پاکستان قرضے نہیں لیتا تھا تو اس کا گروتھ ریٹ بہت چھاتھا‘پاکستان نے تعلیم اور صحت پر بہت کم خرچ کیا جس سے غربت بڑھی ہے اگر پاکستان مزید قرضے لے گا تو ان کی ادائیگی نہیں کر سکے گا۔حال ہی میں ملک میں 220لگژری گاڑیاں امپورٹ کہ گئی ہیں مگر جان بچانے والی ادویات نہیں آ رہیں‘ اگر لگژری
اشیاء اور فوڈزکی درآمدات بند کر دی جائیں تو 3.15بلین ڈالرز بچائے جا سکتے ہیں‘ دیگر ملکوں سے مقامی کرنسی میں کھانے پینے کی چیزیں اور گیس حاصل کی جا سکتی ہے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ جو ٹیکنوکریٹس حکومت کے ساتھ بطور ماہرین معیشت کام کریں وہ عالمی مالیاتی اداروں اور باہر کے ملکوں کے تنخواہ دار نہیں ہونے چاہئیں۔افغانستان کی جانب سے طورخم گزرگاہ کئی روز سے بند ہے نہ جانے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ دونوں مل کر مشترکہ طور پر طورخم پر بارڈر مینجمنٹ میں بہتری کیوں نہیں لاتے طورخم کے دونوں اطراف پاکستان اور افغانستان کا ایک جائنٹ کمیشنچوبیس گھنٹے متحرک رہنا چاہئے جو لمحہ بہ لمحہ اس بارڈر کو کراس کرنے والوں کو پیش آ نے والی تکالیف اور مشکلات کا موقع پر ہی ازالہ کرے‘ اس ضمن میں ہماری ان دونوں مندرجہ بالا وزارتوں کے اعلیٰ حکامکا بھی افغانستان کے متعلقہ حکام کے ساتھ ہاٹ لائن پر روزانہ کی بنیادوں پر رابطہ رکھنا ضروری ہے۔